Get Alerts

اداروں کو بھی میثاقِ جمہوریت پر عمل کرنا ہوگا جس کی روح قومی مفاہمت ہے

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس  کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر سنگین غداری کا جرم ثابت ہوتا ہے لہٰذا انہیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ تفصیلی فیصلے کے پیرا نمبر 66 میں جسٹس سیٹھ وقار نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پرویز مشرف کو گرفتار کر کے سزا پر عملدرآمد کی ہدایت کی اور لکھا کہ اگر وہ  انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین روز تک لٹکائی جائے۔ جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کے لئے آئین کی ضرورت ہے جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کریں، لہٰذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ناقابل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک آمر صرف اس وقت تک اقتدار میں رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے عوام کی مرضی کو تہ وبالا نہ کرے۔ آئین کے ذریعے قائم کردہ حکومت اور ریاست کے دیگر اداروں کے فرائض پر قبضہ کرنا آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش (جیسا کہ انہیں کام کرنے سے روکنا یا ان سے اضافی آئینی حلف لینا) آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق یقیناً سزائے موت اور فیصلے کے اس حصے کی کہیں بھی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں لیکن چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے اور ملزم کو مجرم قرار دے کر ان کی غیرموجودگی میں سزائے موت سنائی گئی ہے، لہٰذا سزا پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ یہ ایک سخت فیصلہ ہے۔ تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو اپیل کے لئے گرفتاری دینا لازم ہوگی اور عدالتی حکم کے بعد سرنڈر کیے بغیر مشرف اپیل نہیں کر سکتے۔



پاکستان کی تاریخ آمریت کی تاریخ رہی ہے۔ یہاں طویل مارشل لا حکومتیں رہی ہیں۔ کبھی جمہوریت اور انسانی حقوق کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا، طویل مارشل لا حکومتوں کے درمیان شراکت اقتدار کے تحت نیم جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں۔ ان ناتواں، کمزور بے اختیار حکومتوں کو بھی سازشوں کے تحت کمزور یا ختم کیا گیا۔ ایک بھی عوام کا منتخب نمائندہ وزیراعظم آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ اس تناظر میں پاکستان کی سیاست میں یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ ایک بار پھر نظام لپیٹ نہ دیا جائے۔ اور ایک جبر پر مبنی غیر نمائندہ نظام نافذ نہ کر دیا جائے۔ لہذا اس خطرے کو ختم کرنے کے لئے اور پاکستان کو ایک جمہوری سمت کی جانب موڑنے کے لئے سنگین غداری کیس کا یہ فیصلہ آیا ہے۔ یقینی اعتبار سے یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ اب سزا ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ہے، سزا سخت ہے، یا اس کے الفاظ سخت ہیں، یہ ایشو نہیں ہے۔ عدالت کا فیصلہ آمریت اور آئین شکنی کے خلاف آیا ہے، جو یقینی اعتبار سے سخت آنا چاہیے تھا۔ تاکہ مستقبل میں کوئی ماورائے آئین اقدام کا تصور بھی نہ کر سکے۔ اور اگر کوئی کرتا ہے تو وہ عبرت ناک سزا کے لئے تیار رہے۔ کیونکہ آئین اس قوم و ملک کی مقدس دستاویز ہے۔

سنگین غداری کیس کے فیصلے کے بعد پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق 17 دسمبر کو جو مختصر فیصلہ آیا تھا اس کے ردعمل میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا تھا، آج کے تفصیلی فیصلے سے وہ خدشات صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔ اس پر پاکستان بار کونسل نے اس مؤقف کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اس کو مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان بار کونسل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ہماری یہ پختہ رائے ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان آئین اور قانون کی واضح خلاف ورزی ہے اور یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی رائے میں مشرف کے خلاف فیصلے میں کوئی خامی تھی تو قانون طریقہ کار اور راستہ فراہم کرتا ہے جس کو اختیار کر کے ان خامیوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جس کے مطابق اعلیٰ عدلیہ میں اپیل بھی دائر کی جا سکتی ہے اور آئینی درخواست بھی دی جا سکتی ہے لیکن جس انداز میں فوج کے ایک اہلکار نے عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کی ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ملک کے تمام ادارے فوج کے زیرِنگیں ہوں، اس کے احکامات پر چلتے ہوں اور عدلیہ سمیت کسی ادارے کی کوئی عزت نہ ہو‘۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت، اس کے وزرا، اٹارنی جنرل اور قانونی مشیران کی طرف سے جو رویہ اختیار کیا گیا اس سے ایسے ظاہر ہوتا ہے جیسے حکمران جماعت کو فوج نے اقتدار پر بٹھایا ہو اور یہ ادارہ ہی ملک چلا رہا ہو اور اسی وجہ سے وہ ایک ہی لب و لہجے میں عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں‘۔ بیان کے آخری حصے میں ایک مرتبہ پھر فوج کے افسر اور حکومتی اہلکاروں کے رویے پر تنقید اور اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’عدلیہ اور انصاف کی فراہمی کے آئینی طریقہ کار کی تضحیک‘ قرار دیا گیا ہے۔

فل کورٹ ریفرنس سے اپنے الوداعی خطاب میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ انہیں اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے۔ غداری کیس کے تفصیلی فیصلے کے بعد تضحیک آمیز مہم چلائی گئی۔ ان کے بقول مشرف کیس پر ان کے اثر انداز ہونے سے متعلق باتیں تضحیک آمیز ہیں۔ ’مجھے اور عدلیہ کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے۔ سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ سچ کا ہمیشہ بول بالا ہو گا‘۔

اس وقت ٹی وی، اور سماج میں جو بحث ہورہی ہے، جس کو کچھ لوگ اداروں کے درمیان تصادم بھی کہہ رہے ہیں، یہ ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں تقسیم بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ واضع طور پر دو گروپس میں تقسیم دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہاں خوش آئند امر یہ ہے کہ اس تاریخی فیصلے کی حمایت عوام کی اکثریت کر رہی ہے، جبکہ دوسری جانب کی نمائندگی کے لئے رینٹ اے کراؤڈ اور رینٹ اے سپوکس پرسنز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ مشرف کی حمایت میں نکالی گئی ریلیوں میں بمشکل درجن، دو درجن لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ جو لوگ کچھ عرصہ قبل جانے کی باتیں جانے دو کی مہم چلارہے تھے، وہی کراؤڈ اب مشرف کی حمایت کی ریلیوں اور بینرز لگانے میں استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن ختم کرنے اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے آئین کا احترام بہت ضروری ہے۔ آئین ہی وہ میکینزم ہے جو ملک و قوم کو درپیش چیلینجز کا حل فراہم کر سکتا ہے۔ پاکستان کو ایک نئی سمت اور جمود سے نکال کر آگے بڑھانے کے لئے میثاق جمہوریت اور ’ٹرتھ اینڈ ریکنسیلئیشن کمیشن‘ بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بلکہ بہت سے مبصرین اس کو لازم قرار دے رہے ہیں۔ ہماری بھی یہی رائے ہے۔ پاکستان میں جو بڑے بڑے سانحات اور بدترین واقعات رونما ہوئے ہیں،ان کا اعتراف ہونا بہت ضروری ہے۔  ان پر معروضی، حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں بات ہونی چاہیے۔ اس پر معاشرے کے اندر مکالمہ ہونا چاہیے جس کے بعد  تجاویز وسفارشات مرتب کر کے، آگے کی سمت کی بہتر نشاندہی ہو سکتی ہے۔

سچائی اور مفاہمتی کمیشن کی اصطلاح اور تاریخ یوں ہے کہ عظیم آنجہانی نیلسن منڈیلا نے اقتدار میں آنے کے بعد جنوبی افریقہ جو 1960 سے 1995 تک بدترین نسلی منافرت کا شکار رہا میں اس بدترین نسلی منافرت اورانسانی حقوق کی پامالی کے حقائق جاننے کے لئے آئین کے آرٹیکل 34 کے تحت سچائی اور مفاہمتی کمیشن ’ٹرتھ اینڈ ری کنسیلئیشن کمیشن‘ تشکیل دیا تھا۔ جس نے 1996 میں اپنا کام شروع کیا اور دو برسوں میں نسلی منافرتوں کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کے ذمہ داروں کا تعین کیا۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے مفاہتی پالیسی کے تحت عام معافی دے کر ملک کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کیا۔ سب نے اپنے گناہوں، جرائم کا اعتراف کر کے ملک و معاشرے کو اس قابل بنایا کہ وہ نئی سمت میں آگے بڑھ سکے۔


پاکستان کو موجودہ بحرانوں کے گرداب سے نکالنے کے لئے ایسے کمیشن اور قومی مکالمے کی اشد ضرورت ہے، جو پاکستان کے بڑے بڑے سانحات اور جمہوریت کے خلاف ہونے والی گھناؤنی سازشوں کی غیر جانبداری اور مکمل اختیار کے ساتھ تحقیقات کرے، ذمہ داروں کا تعین کرے۔ اس کمیشن کے سامنے تمام فیصلہ ساز، پالسی ساز افراد جو اب تک کسی نہ کسی عہدے پر فائز رہے ہیں، سیاسی رہنما، بیوروکریٹس، جرنیل، صحافی، اینکر حضرات ، علما اور بزنس مین، تاجرپیش ہوں اپنی غلطیوں گناہوں کا اعتراف کریں۔ اپنی ناکامیوں، کوتاہیوں کو تسلیم کریں۔ اپنی سیاسی و مالی بے ضابطگیوں کو مانیں۔ اور آئندہ سے ان کو نہ دہرانے کا عزم کریں۔ اعتراف ہر کسی کی جانب سے کیا جائے۔ اس کے بعد ایک نئی قومی سمت کا تعین کیا جائے۔

میثاق جمہوریت بھی ایک اہم ترین قومی سیاسی دستاویز ہے، یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان طے پانے والا تاریخی معاہدہ ہے۔ اس میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم، جمہوریت میں فوج کی حیثیت، نیشنل سکیورٹی کونسل، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں جماعتوں کے مشترکہ نکتہ نظر کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بھی ایک ایسا کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی جو 1996 کے بعد سے فوج کی طرف سے جمہوری حکومتوں کو ہٹانے اور کارگل جیسے واقعات کی تحقیقات کرے اور اس سے متعلق ذمہ داری کا تعین کرے۔ بدلتے ہوئے حقائق اور موجودہ صورتحال کے مطابق اگر میثاق جمہوریت میں بھی ترمیم و اضافہ کیا جاتا ہے، اور اس میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں، تو یہ قدم بھی پاکستان کو نئی سمت دینے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔