جنیدحفیظ کو توہین کے الزامات کے تحت چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ الزامات اُن پر ایک اسلامی گروپ نے عائد کیے تھے ۔ یہ وہی گروپ ہے جو بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ، ملتان کے شعبہ ادب میں اُن کی بطور استاد مستقل تعیناتی کے خلاف تھا۔ اب قیدِ تنہائی کاٹنے والے حفیظ جیل میں بھی مطالعہ کا شوق
جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ اُن کے وکیل کی مہربانی ہے کہ وہ اُنہیں کتابیں فراہم کرتے رہتے ہیں۔
عمرعلی
نئی رِیت چلا کر تم یہ رِیت امر کردو میرا گیت امر کردو ہونٹوں سے چھو لو تم
جنید حفیظ نے یہ یادگار رومانوی غزل ملتان میں ایک مقامی ریڈیو ، FM 103 پر گائی تھی۔اُن کا ایک گھنٹہ طویل ریڈیو انٹرویو، جو جنوری 2011 ء کو کیا گیا، جنید کے اندر چھپے رومانوی طور پر گہرے لیکن پر عزم شخص کومتعارف کراتا ہے ۔ جنید حفیظ ایک طرف اپنی بے تکلف گفتگو میں زندگی کے جذبوں سے بھرپور تو دوسری طرف اور ادب اور شاعری کی کتابو ں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔ مارچ 2013 ء کو جنید حفیظ پر لگنے والے الزامات نے اُن سے ان کی زندہ دلی اور جذبات چھین لیے۔ ان الزامات نے اُنہیں چار سال کے لیے جیل کی نذ ر کردیا، لیکن یہ مدت پوری ہونے کے بعد بھی یہ الزامات اُن کا تعاقب کرتے رہیں گے ۔ اُن کا کیس ہنوز زیرِ سماعت ہے۔
جنید حفیظ کی کہانی ایک غیر معمولی انسان کی کہانی ہے ۔ انٹر میڈیٹ کے امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد جنید نے اپنے تعلیمی سلسلے کو میڈیکل کے شعبے کی طرف بڑھایا اور پاکستان کی بہترین درس گاہ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ، لاہور میں داخلہ لے لیا۔ تاہم لاہور میں دوسال گزارنے کے بعد جنید کو اپنی شخصیت کے ایک بہت مختلف پہلو کا پتہ چلا۔ اُن کا رجحان ادب کی طرف تھا۔ اُن کے اندر ایک شاعر اور ایک ادیب چھپا ہوا تھا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ہی اُنھوں نے اپنی پہلی نظم لکھی جو ’’خلیج ٹائمز ‘‘ کے ینگ ٹائمز سیکشن میں 2006 ء میں شائع ہوئی ۔ اس نظم کا عنوان تھا، ’’ارے تم !‘‘۔ یہ نظم اکیس سالہ جنید حفیظ میں رونما ہونے والی فکری اور جذباتی تبدیلیوں کی عکاس تھی ۔
تمہیں دیکھتا ہوں میں جب بھی تو لگتا ہے ایسے کہ ہوں مسکراتی سی پریاں یا شبنم کے موتی دمکتے فرشتے، یا جھلمل ستارے وہ چاند اور سورج کی دنیا یہ کل کائناتی نظارے ہیں سب مجھ سے منسوب لگتے تمہیں دیکھتا ہوں میں جب بھی۔
میڈیکل تعلیم حاصل کرنے کے فیصلے سے الجھن محسوس کرنے کے بعد جنید نے پاکستان کے اس ممتاز ترین کالج کو خیر آباد کہہ دیا۔ وہاں اُن کی تعلیمی زندگی دوسال پر محیط تھی۔ بعد میں اُنھوں نے اس فیصلے کو اپنے اندر کا فنکار دریافت کرنے کا ایک مرحلہ قرار دیا۔ اُن کی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں زندگی واقعات کا ایک تسلسل تھی ۔اُنھوں نے FM 103 کے میزبان کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا...’’میں نت نئی بلندیوں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یکے بعد دیگرے، کسی ناکامی کے خوف کے بغیر ، مایوسی کا کوئی خدشہ نہ تھا۔ ایک اچھا فنکار ہونے کے لیے گرنا، اور خود کو اٹھانا ضروری ہے ۔‘‘ جنید حفیظ نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ، ملتان میں داخلہ لے لیا اور انگلش ادب پڑھنا شروع کردیا۔ اس کے بعد اُن کی زندگی بال و پَر سے آشنا ہوئی۔ اُس میں تبدیلی کا سفر شروع ہوا۔ وہ فلبرائٹ سکالرشپ پر امریکی ادب کا مطالعہ کرنے جیکسن یونیورسٹی امریکہ گئے ۔ وہاں سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی مادرِ علمی، بہاالدین زکریا یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے لیے واپس پاکستان آگئے ۔ یہاں کے انگریزی ادب کے شعبے کا ماحول قدرے لبرل اور سیکولر تھا ،جبکہ ارد گرد یونیورسٹی کے ماحول میں اسلام پسندی کی فضاگہری ہورہی تھی ۔ فطری طور پر باغیانہ خیالات رکھنے والے جنید نے مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوئے سیکولر اقدار کے فروغ کی بات کرنا شروع کردی۔ اس دوران وہ اپنی علمی اسناد کی وجہ سے اس شعبے میں مستقل تقرری کے حقدار بھی تصور ہونے لگے ۔ تاہم کیمپس میں موجود طلبہ کا ایک اسلامی گروپ اس پوسٹ پر نظریں جمائے ہوئے تھاتاکہ اس شعبے کو بھی مذہبی رنگ میں رنگا جاسکے ۔ جنید کے کیس کو قریب سے دیکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اُنہیں شعبہ انگریز ی ادب میں مستقل پوسٹ حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اُن پر توہین کا الزام لگایاگیا۔ جنید کے 2011 ء میں دیے گئے انٹرویو میں یونیورسٹی میں اسلامی رجحان کے بڑھنے سے اُن کے لیے پیداہونے والی مشکلات کا پتہ چلتا ہے ۔ وہ اپنے ایک پروفیسر کے ساتھ اپنے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں...’’کچھ شر پسندوں نے یونیورسٹی کو بند کرانے کے لیے طلبہ کو کلاسوں سے نکال دیا تھا۔ میں کچھ ساتھی طالبات کے ساتھ بات چیت کررہا تھا جب ایک پروفیسر صاحب ہماری طرف آئے اور مجھے لڑکیوں سے باتیں کرنے پر ڈانٹ پلائی ۔ میں نے بھی آگے سے دوٹوک لہجے میں جواب دیا کہ وہ میری بجائے اُن شر پسندوں پر توجہ دیں جنہوں نے یونیورسٹی کو بند کردیا ہے ۔‘‘
اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے جنید کی قیدنے اُن کے اہلِ خانہ کو بری طر ح متاثر کیا ہے ۔ اس سال کے آغاز میں اُن کے والد صاحب کو دل کا دورہ پڑا۔ جب میری گزشتہ سال اُن سے ملتان میں ملاقات ہوئی تو وہ شکست خوردہ لگتے تھے ۔ اُن کی آنکھوں کے سرخ ڈوروں میں پریشانی کی جھلک نمایاں تھی، وہ جسمانی طور پر کمزور اوربیماردکھائی دیتے تھے ۔ جنید کی والدہ ، جو اُس وقت جنید کی شادی کے لیے کوئی لڑکی تلاش کررہی تھیں جب وہ گرفتار ہوئے ، نے اس کے بعد کسی شادی کی تقریب میں شرکت نہیں کی ہے ۔ انوکھی اور نرالی سوچ رکھنے والے جنید یونانی یا رومن دیومالائی دنیا سے متاثر نہیں۔ اس کی بجائے اُنھوں نے FM 103 کے میزبان کو یہ گاکر سنایا...’’امریکہ کے نہ جاپان کے، ہم تو ہیں دیوانے ملتان کے ‘‘۔ حتیٰ کہ اپنی قید کے دوران بھی جنید کتابوں اور ادب کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔ اُن کی کتابوں سے محبت کی تصدیق اُن کے والد صاحب بھی کرتے ہیں۔ جب جنید امریکہ سے پاکستان آئے تو اُن کے پاس کتابوں کا وزن 38 کلوگرام تھا۔ اس وقت وہ جیل میں اپنے وکیل کے ذریعے کتابوں کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ جنید کا کیس اُن کے پہلے وکیل راشد رحمان کے قتل کے بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل، اسد جمال نے لیا۔ مسٹر جمال ہر دو ہفتے بعد جنید کے کیس کی سماعت کے موقع پر لاہور سے ملتان آتے ہیں لیکن کیس ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ رہا۔ ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے مسٹر جمال نے مجھے بتایا کہ جنید حفیظ کا جذبہ ابھی بھی جوان ہے ، اور وہ کیس میں پوری دلچسپی لے رہے ہیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود مسٹر جمال پر امید ہیں۔ اُنہیں یقین ہے کہ کیس ختم ہونے کے قریب ہے ۔ اُن کا کہنا تھا...’’کیس کی حالیہ سماعت پر حوصلہ افزا تھی ، اور ہم جلد فیصلے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘جنید کے والد نے بھی اپنے مستقبل کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا...’’جس روز ہمارا بیٹا گھر آیا، ہماری تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔‘‘