جنید حفیظ کی سزائے موت، اور پاکستان کے اعلیٰ ترین دماغوں کا مخمصہ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی مقامی عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں گرفتار بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی کے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو دفعہ 295 اے، بی اور سی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا، عمر قید، دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ جس کے بعد ایک بار پھر 295 سی کا قانون، اس کا ناجائز استعمال، مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کا مستقبل اس کی بین الاقوامی امیج جیسے موضوعات بحث کا موضوع بنے ہیں۔

اگرچہ پاکستان کے مین سڑیم کارپوریٹ میڈیا پر تو یہ خبر جگہ نہ پا سکی، اور اس پر جنرل (ر) مشرف کی پھانسی اور اداروں کے درمیان تصادم کی خبریں ہی چھائی رہیں، اور جنید حفیظ کی سزا کے حوالے سے نہ کوئی ٹاک شو ہوا، نہ کسی تجزیہ نگار نے اس حساس موضوع پر گفتگو کرنے کا حوصلہ کیا۔ مگر پاکستان کے متبادل میڈیا، جس کو شہریوں کا میڈیا بھی کہا جاتا ہے، اس میں اس فیصلے پر سخت تنقید نظر آئی۔ ٹویٹر پر ’ جنید حفیظ کو انصاف دو‘ ٹرینڈ بھی چلایا گیا۔



جنید حفیظ کا تعلق صوبہ پنجاب ہی کے ایک شہر راجن پور سے ہے اور وہ انگریزی زبان و ادب کے ایک لیکچرار ہیں۔ وہ 2010 میں ایک امریکی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس پاکستان گئے تھے۔ انہیں 2013 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ملتان کی ایک یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچرار کے طور پر پڑھاتے تھے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد کئی مرتبہ جنونی ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے، کئی ملزموں کو جیل کے اندر ہی موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ گذشتہ تقریباً چھ برسوں سے جیل میں بند جنید حفیظ کو قید تنہائی میں رکھنے کا یہی جواز پیش کیا گیا کہ دیگر قیدیوں کے ساتھ رکھے جانے کی صورت میں ان پر جیل کے اندر ہی قاتلانہ حملہ بھی کیا جا سکتا تھا۔

اس کے علاوہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر ان کے خلاف ہفتے کے مقدمے کی سماعت بھی اسی جیل میں کی گئی، جہاں وہ قید ہیں۔ جنید حفیظ کے وکیل دفاع شہباز گورمانی کے مطابق ان کے مؤکل کو سزا سنانا ایک غلط فیصلہ ہے، جس کے خلاف وہ اپیل کریں گے۔



جنید حفیظ ایک شاعر، ادیب اور دانش ور ہیں، وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور میں زیرِ تعلیم تھے جب اُن کو احساس ہوا کہ اُن کی زندگی میڈیکل نہیں بلکہ ادب و دانش سے جُڑی ہوئی ہے۔ اُن کا رجحان ادب کی طرف تھا۔ اُن کے اندر ایک شاعر اور ایک ادیب چھپا ہوا تھا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں ہی اُنہوں نے اپنی پہلی نظم لکھی جو ’خلیج ٹائمز‘ کے ینگ ٹائمز سیکشن میں 2006 ء میں شائع ہوئی۔ اس نظم کا عنوان تھا، ’ارے تم!‘۔

بہاالدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان میں انگلش ادب پڑھنے کے بعد وہ فلبرائٹ سکالرشپ پر امریکی ادب کا مطالعہ کرنے جیکسن یونیورسٹی امریکہ گئے۔ وہاں سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی مادرِ علمی، بہاالدین ذکریا یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دینے کے لئے واپس پاکستان آ گئے جہاں اُن پر توہین مذہب کا الزام لگا۔



پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین نہ صرف امتیازی ہیں بلکہ ان کا استعمال بھی انتہائی ناجائز طور پر ہوا ہے۔ ان قوانین کا غلط استعمال، ذاتی رنجشوں کے حساب چکانے، جائیدادیں ہتھیانے، اور خوف و ہراس پھیلانے کے لئے ہوا ہے۔ اس قانون کا ناجائز استعمال دنگے فسادات اور مذہبی اقلیتوں کی بستیاں جلانے کی صورتوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شانتی نگر اور گوجرہ میں مسیحی بستیوں کو جلایا گیا۔ ان واقعات میں کئی معصوم بے گناہوں کی جانیں گئیں۔ مذہبی اقلیتوں میں بالخصوص خوف وہراس پھیلا اور انہوں نے پاکستان سے ہجرت کر کے بیرون ممالک سیاسی پناہ کے راستے ڈھونڈنے شروع کر دیے۔ بے تحاشہ صاحب استطاعت اور پڑھے لکھے لوگ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔ ملک سے مذہبی اقلیتوں کے انخلا کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

لوئر کورٹس کے فیصلوں کے تحت کئی ملزمان کو اب تک اس امتیازی قانون کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی ہے، جس کی وجہ وہاں پر لوکل پریشر ہوتا ہے، جہاں تھانوں کو گھیر کر، عدالتوں کو دباؤ میں لا کر فیصلے لیے جاتے ہیں۔ مقامی عدالتوں کی جانب سے دیے گئے سزائے موت کے فیصلے جب اعلیٰ عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہاں پر ثبوت و شواہد کی کمی کی بنا پر یہ مقدمات ٹھہر نہیں پاتے اور اعلیٰ عدالتوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کو باعزت بری کریں۔

آج تک کسی بھی ملزم یا ملزمہ کو سنائی گئی ایسی کسی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ایسے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزمان اکثر برسوں تک جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور سماجی سطح پر صورت حال یہ ہے کہ کسی بھی مرد یا خاتون شہری کے خلاف کسی بھی فرد کی طرف سے ایسے الزمات کا لگایا جانا ہی اکثر مشتعل شہریوں کی طرف سے انتہائی خوفناک اور پُرتشدد احتجاج کی صورت میں ہوتا ہے جو کئی معصوم زندگیوں کی موت کا پروانہ ثابت ہوتا ہے۔ ان امتیازی قوانین سے بہت ناجائز خون بہا ہے۔ اور کسی بھی غلط الزام لگانے والے کو سزا نہ ملی۔

عدالتوں میں ان مقدمات کی پیروی کرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ ملزمان کو وکیل نہیں ملتے، وکلا کو موت کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جنید حفیظ کے پہلے وکیل انسانی حقوق کا بڑا نام راشد رحمان کو اسی مقدمے کی پیروی کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ملزم کا کیس لینے والے دوسرے وکیل پیروی سے دستبردار ہوگئے تھے۔ پیروی کرنے والے تیسرے وکیل کو بھی دوران سماعت دھمکیاں دی گئی تھیں۔ جب گذشتہ سات برس سے جاری توہین مذہب کے اس مقدمے کی شنوائی کرنے والے آدھ درجن سے زائد جج تبدیل ہوئے ہوں جب کہ مقدمے کی پیروی کے دوران ہی وکیلِ صفائی راشد رحمان کو بھی قتل کر دیا گیا ہو، جب اپریل 2014 میں سکیورٹی خدشات کی بنا پر جنید حفیظ کے خلاف مقدمے میں ملتان سینٹرل جیل میں سماعت کے موقع پر ملزم کے وکیل راشد رحمان اور اللہ داد مقدے کی سماعت کے دوران جج کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ اور وہ ملزم کی بریت کے لئے دلائل دے رہے تھے تو تین افراد نے جج کی موجودگی میں راشد رحمان ایڈووکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’آپ اگلی مرتبہ عدالت نہیں آ سکیں گے کیونکہ آپ اب مزید زندہ نہیں رہ سکیں گے‘۔

 

ایڈووکیٹ رحمان نے جج کی توجہ دھمکی کی جانب دلائی لیکن اطلاعات کے مطابق جج صاحب نے مبینہ طور خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس کے اگلے ہی ماہ سات مئی 2014 کو راشد رحمان کو قتل کر دیا گیا تھا۔ دسمبر 2014 میں جنید حفیظ کے وکیل شہباز گرمانی کو ہراساں کرنے کے لئے نہ صرف ان کے گھر کے قریب ہوائی فائرنگ کی گئی بلکہ انہیں دھمکی آمیر خط بھی موصول ہوا تھا۔ شہباز گرمانی نے بتایا کہ اس کے بعد انہیں ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ ان کے ساتھ بھی راشد رحمان والا سلوک کیا جائے گا۔ ’اگر تم نے توہین مذہب کے ملزم جنید کی وکالت کی یا اس طرح کا کوئی بھی مقدمہ لڑا تو تمہارا سر قلم کر دیں گے۔‘ اس صورت میں آزادانہ اور بلا خوف و خطر پیروی کیسے ہوئی ہو گی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

آگے جب یہ کیس اعلیٰ عدالتوں میں آتا ہے، تو پھر دیکھنا ہوگا کہ جنید حفیظ کے وکلا کو کیا ماحول ملتا ہے، اور وہ کیسے اس کیس کی پیروی کرتے ہیں۔

آگے چل کر جب یہ مقدمہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں چلتا ہے، اور الزامات ثابت نہیں ہوتے، اور مقدمہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے، تو کیا جنید حفیظ پاکستان میں آزادی اور تحفظ کے ساتھ رہ سکیں گے؟ کیا وہ آئین میں موجود انسانی حقوق سے مستفید ہوسکیں گے، کیا انہیں پاکستان میں بلاخوف و خطر آزادانہ نقل و حرکت کا حق و تحفظ ہوگا؟ یقیناً نہیں۔ اگر مستقبل میں اعلیٰ عدلیہ کے کسی فیصلے سے وہ باعزت بری ہو کر مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی طرح ملک سے چلے جاتے ہیں، تو وہ کینیڈا کی کسی درسگاہ میں بیٹھے یہ سوچ رہے ہوں گے، کہ کیا حاصل ہوا، اس سے تو بہتر تھا فل برائٹ سکالرشپ کے بعد امریکہ میں ہی سیاسی، مذہبی پناہ لے لیتا۔ کیا حاصل ہوا اتنے سال برباد کرنے، مذہبی منافرت اور سماجی انتہا پسندی کا اتنا قریب سے تجربہ و مشاہدہ کرنے کا؟