شہباز، چودھری ملاقات کی خبروں سے بہت سوں کے ٹھنڈے پسینے نکل گئے ہیں

شہباز، چودھری ملاقات کی خبروں سے بہت سوں کے ٹھنڈے پسینے نکل گئے ہیں
ڈان سے وابستہ سینیئر صحافی فہد حسین کے ریڈ زون سے ان کی رپورٹس کے لئے آج کل خوب سراہے جا رہے ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور معاملات پر نظر رکھنے والے اور نظر رکھنے پر مامور غیر سیاسی لوگوں سے وہ وہ خبریں نکلوا لیتے ہیں جن کے لئے صحافی آج کل مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اور ان کا گرم چھری جیسا کاٹ دار تجزیہ اس وقت سیاسی حلقوں میں بڑی دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے۔

جمعرات کو ڈان کے لئے اپنے مضمون میں فہد حسین لکھتے ہیں: پاکستان سپر لیگ اور پاکستان مسلم لیگ دونوں ہی لاہور میں آگ لگا رہی ہیں۔ سارا ایکشن اور سارا سسپنس اس وقت یہیں ہے، اور آخری معرکے تک داؤ جاری رہے گا۔

لیکن جہاں کرکٹ کے کھلاڑی ایک طے شدہ شیڈول کے تحت کھیلتے ہیں، سیاسی کھلاڑیوں پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔ اگر ایم کیو ایم رہنماؤں کی ن لیگی رہنماؤں سے ملاقات نے دلوں کی دھڑکنیں تیز کی ہیں تو اصل جھٹکے میں کیا ہوگا۔ ایک ق لیگی رہنما نے تصدیق کی ہے کہ " شہباز شریف صاحب جلد ہماری قیادت سے ملنے آ رہے ہیں"۔ ماضی کے یہ ساتھی جو بعد میں دشمن بن گئے لاہور میں جلد ہی ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔ ریڈ زون میں بہت سوں کے ٹھنڈے پسینے نکل گئے ہیں۔ اب تک چودھریوں کی مسلم لیگ ق پی ٹی آئی کی ایک پکی اتحادی رہی ہے۔ لیکن جب بھی ضرورت پڑی، اس نے حکمراں جماعت کو جلتے کوئلوں پر دھکا دینے میں بھی کوئی تامل نہیں برتا۔ اور یہ ضرورت کئی مرتبہ پڑ چکی ہے۔

لیکن شہباز شریف سے ایک رسمی ملاقات؟ یہ ایک نئی ہی قسم کا منظر ہوگا۔ اور اس کے باوجود، وہ اپنے الفاظ بہت محتاط رہ کر استعمال کر رہے ہیں کہ کہیں ان کی سوچ وقت سے پہلے ہی عیاں نہ ہو جائے۔ ق لیگ کے ایک لیڈر نے کہا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ کیا وہ شہباز شریف سے ملاقات میں کوئی بریک تھرو ہونے کا امکان دیکھ رہے ہیں؟ "پہلے دیکھتے ہیں شہباز صاحب کیا کہتے ہیں"، یہ تھا ان کا جواب۔

یہ معمول کی ملاقات نہیں ہے، ویسے ہی جیسے یہ معمولی حالات نہیں ہیں۔ سیاسی کڑائی میں ابال ہے لیکن ابھی ہانڈی پھوٹی نہیں۔ اپنی جماعت کے صدر کی حیثیت سے شہباز شریف اپوزیشن جماعتوں کو ایک ایسی قوت میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں جٹے ہیں جو متحد ہو کر عمران خان کو اقتدار سے نکال باہر کرے۔ آصف زرداری کی صورت میں انہیں ایک شریکِ کار بھی مل گیا ہے۔ یا کم از کم حالات تو یہی بتا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما جو بہت قریب سے ان سیاسی معاملات کو دیکھ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ "یہ مناظر بہت اہم ہیں"۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں ن لیگ کے ساتھ برف پگھلانے کی ضرورت تھی اور وہ ہو گیا ہے"۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ شہباز شریف اور مریم نواز کے ساتھ آصف زرداری اور بلاول کی ملاقات نے دونوں جماعتوں کے لئے مل کر کام کرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ کیا ان کے ساتھ کوئی ٹھوس بات ہوئی ہے؟ پیپلز پارٹی لیڈر تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی تک تو شاید نہیں، لیکن ان کے مطابق working relationship تقریباً قائم ہو گیا ہے۔

ن لیگی بھی اس بات سے کسی حد تک متفق ہیں۔ معاملات کو پیچھے سے چلانے والے ایک اہم ن لیگی رہنما کا کہنا ہے کہ "اگر 'وہ' غیر جانبدار ہو گئے ہیں تو گیم آن ہے"۔ یقیناً ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔ پارٹی میں دیگر افراد کو لگتا ہے کہ ان کے قائدین بالآخر متحرک ہو گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بڑی تبدیلی نواز شریف کے رویے میں نظر آنے والی لچک ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق انہوں نے PTI حکومت گرانے کے لئے تعداد پوری کرنے کا اشارہ چھوٹے بھائی کو دے دیا ہے، اگر ممکن ہے تو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں حرکت تیز ہو گئی ہے۔

اس تبدیلی میں ان کی نیت تو نظر آ رہی ہے۔ البتہ دکھانے کو کچھ زیادہ نہیں ہے۔ حکومتی اتحادی کچھ ناراض نظر آ رہے ہیں، یہ تو واضح ہے، لیکن کیا یہ ناراضگی موجودہ حکومت سے ہی کچھ مزید مراعات لینے کے لئے دباؤ بڑھانے سے زیادہ کچھ کرے گی؟ ایم کیو ایم کیمروں کی چکا چوند میں ماڈل ٹاؤن پہنچی ہے اور حکمراں جماعت کے بارے میں پریشان کن اشارے دے رہی ہے۔ لیکن اس نے ابھی تک ایسا کچھ نہیں کیا جس سے لگے کہ یہ اپنے پتوں پر دوبارہ سے غور کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ق شہباز شریف کے ساتھ کھانا تو کھا لے گی لیکن شاید عمران خان سے راہیں جدا کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ اب تک۔ بلوچستان عوامی پارٹی بھی منہ بسور رہی ہے کہ اسے کابینہ میں جثے کے برابر حصہ نہیں ملا لیکن اگر یہ سائیڈ بدلتی ہے تو اس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔

ریڈ زون کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ یہ غیر یقینی صورتحال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی۔ حقیقت غالباً یہی ہے کہ سب اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ حکومت جتنی کمزور نظر آتی ہے اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ اپوزیشن کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بڑی بڑی باتیں، دلیرانہ بیانات اور فتح کی نویدیں یہ حقیقت چھپانے کے لئے ناکافی ہیں کہ تمام سیاسی کھلاڑیوں کو مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ ریڈ زون کے حالات کچھ اس قسم کے ہیں۔

ایسے موقع پر نکتے ملا کر کوئی خاکہ بنانا خطرے سے خالی نہیں۔ PTI کے فیصل واؤڈا کو الیکشن کمیشن نے فارغ کر دیا ہے پر کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کوئی pattern بن رہا ہے؟ ان کا کیس کمزور تھا اور فیصلہ کسی کے لئے بھی حیران کن نہیں۔ اس کے باوجود اپوزیشن عمران خان کے الفاظ ان کے سامنے دہرائے بغیر رہ نہیں پا رہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئیٹ کیا: "PTI کی ایک اور وکٹ گر گئی"۔ وہ یقیناً یہ الفاظ لکھتے ہوئے شرارت سے مسکرا رہے ہوں گے۔

مگر، وہ اور دیگر لیڈران جانتے ہیں کہ نکتے موجود ہیں، پر pattern نہیں ہے۔ اس لئے سب آگ کے گرد ناچ رہے ہیں اور جو گرمی مل جائے لے لیتے ہیں۔

فہد حسین کا یہ مضمون ملک کے سیاسی حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ اس میں ان اشاروں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جو بتدریج واضح ہونے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ کنفیوژن صرف صحافتی بیٹھکوں میں ہی نہیں، سیاسی لوگ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کھیل ہے کیا۔ فی الحال تیل اور اس کی دھار دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن 2022 کے پہلے تین ماہ جن کے بارے میں کئی ماہ سے پیشگوئیاں جاری تھیں سسپنس کی حد تک سب کی امیدوں پر پورا اتر رہے ہیں۔