PEMRA has directed TV channels to not air ‘indecent’ dramas after too many complaints
اسی طرح کے ریمارکس حال ہی میں معزز چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی دیے ہیں کہ بھارتی مواد پاکستانی ٹی وی چینلوں پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ ہماری ثقافت اور معاشرے کیلئے نقصان دہ ہیں۔ پیمرا ہو یا معزز عدلیہ ان معزز اداروں کو اخلاقی پولیس بننے کا اختیار کس نے دیا یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ڈراموں اور فلموں میں دکھائے جانے والے موضوعات دیکھنے والوں کی زندگیوں کے حالات و واقعات کی ترجمانی نہ کریں تو ڈرامے اور فلمیں کبھی بھی دیکھے نہیں جاتے۔ کسی بھی فلم یا ڈرامے کی کہانی لکھتے اور عکسبندی کرتے وقت یہ امر ضروری بنایا جاتا ہے کہ ان میں موجود کردار اور دکھائے گئے حالات و واقعات فلم بینوں اور ڈرامے دیکھنے والوں کے موجودہ مسائل یا پھر ان کی خواہشات اور خوابوں کے مطابق ہوں۔ اگر معاشرے میں طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے یا شادی شدہ افراد کی ازدواجی زندگی کا معیار اچھا نہیں ہے اور اس کے باعث وہ کہیں اور معاشقے لڑاتے ہیں تو ظاہری بات ہے ڈرامہ نگار یا فلم نگار ان مسائل کو ہی اجاگر کرے گا۔ یہ تو ممکن نہیں ہو سکتا کہ 2019 میں ڈرامہ نگار یا فلم نگار 70 اور 80 کی دہائی کے مسائل یا اس زمانے کے ناظرین کے خواب سکرین پر پیش کرے اور اسی زمانے کا لباس ہیرو یا ہیروئن کو پہنا کر مناظر عکسبند کرے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ہمارے ارباب اختیار آرٹ اور تفریح کے لوازمات پر بھی خود ساختہ اخلاقی قدغنیں عائد کرنا چاہتے ہیں تاکہ معاشرے کی اقدار اور ثقافت کو بچایا جا سکے۔ حالانکہ پرفارمنگ آرٹ، فلم ڈرامہ یہ تمام اصناف دراصل معاشرے کے بدلتے ہوئے رجحانات کی عکاسی کرتے ہوئے معاشرے میں تفریح اور کتھارسس کے لوازمات پیدا کرتے ہیں۔
فلم اور ڈرامے کے کرداروں میں ہر فلم بین یا ڈرامہ دیکھنے والا شعوری یا لاشعوری طور پر اپنا عکس تلاش کرتا ہے اور وہ تمام ناتمام خواہشات اور خواب خواہ وہ رومانوی ہوں یا مادی ان کو پردہ سکرین پر دیکھ کر کچھ لمحات کیلئے زندگی کی تلخیوں کو فراموش کر کے اپنے آپ کو ہلکان محسوس کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ڈراموں اور فلموں کو تفریح کا بہترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگر تفریح کو بھی حجاب اور پردہ پہنانے کی کوشش کی جائے جیسا کہ ضیاالحق کے دور میں کی گئی تھی تو اس کے انتہائی مضر اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
ہم نے ضیا دور کی خود ساختہ اسلامائزیشن کے نتیجے میں ڈراموں اور فلموں میں " بے حیائی" جبراً روکنے کا نتیجہ معاشرے کی حس جمالیات کے زوال اور ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کے زوال کی صورت میں بھگتا ہے۔ ہماری برصغیر کی ثقافت صدیوں پرانی ہے اور فنون لطیفہ کی ایک زبردست تاریخ رکھتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار عربی ثقافت کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے۔ مذہب اور ثقافت کے فرق کو سمجھنے اور سمجھانے کی یہاں کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی ہے۔ ہماری ثقافت میں وارث شاہ کی ہیر بھی ہے اور بلھے شاہ کی بلھا کی جاناں میں کون، یہاں لال قلندر کی دھمالیں بھی ہیں اور امراؤ جان کی ادائیں بھی۔ منٹو کے بیباک افسانے بھی ہیں اور حسینہ معین کے جاندار ڈرامے بھی۔
ہم برصغیر کے لوگ صدیوں سے رقص، موسیقی، شاعری اور افسانوں سے محظوظ ہوتے آئے ہیں اور یہ ہمارے مزاج یا یوں کہیے کہ ڈی این اے میں شامل ہے۔ اس کو جبری طور پر تبدیل کرنے کی کاوشوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ہمیں اس ثقافت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جن معاشرتی اقدار کے تباہ ہونے کا رونا ہم روتے ہیں وہ اقدار خود ساختہ اور فطرت کے خلاف ہیں۔ اکیسویں صدی میں آپ کسی بچی کو شرم حیا کی گردانیں الاپ کر اس کی زندگی کو مردانہ حاکمیت یا فرسودہ رسومات کی دیواروں میں مقید نہیں رکھ سکتے۔
اسی طرح کوئی بھی نوجوان زبردستی وہ طور طریقے نہیں اپنا سکتا جن کی بنا پر اسے معاشرے میں "پارسائی" کی سند عطا ہوتی ہے۔ انٹرنیٹ پر یو ٹیوب اور نیٹ فلکس جیسی بے شمار ویب سائٹس کی موجودگی میں اپنے ڈراموں اور فلموں پر خود ساختہ اخلاقی قدغنیں لگانے کا نتیجہ محض ان صنعتوں کی تباہی کی صورت میں ہی نکلے گا اور ناظرین اپنی آسودگی انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹس سے حاصل کر لیں گے۔ ویسے بھی جن اخلاقیات کا رونا ہمارے ہاں رویا جاتا ہے وہ محض جنسی جبلیات اور آزادانہ طور طریقوں سے اپنی زندگی گزارنے کے متعلق ہیں۔ شاید پچھلی صدی تک تو بنیادی جبلتوں اور زندگی گزارنے کے طور طریقعوں کو زبردستی قابو میں لایا جا سکتا تھا لیکن اس صدی میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
دنیا اب مواصلاتی ذرائع میں ترقی کے باعث ایک گاؤں کی مانند ہو چکی ہے اور اب ایک مشترکہ تہذیب اور ثقافت پروان چڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ڈراموں اور فلموں کی نمائش پر پابندی سے اخلاقیات اور اقداروں پر مرتب ہونے والے اثرات پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ تہذیب یا ثقافت جامد نہیں ہوا کرتی اس کو وقت اور عصر حاضر کے تقاضوں میں ڈھل کر آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے۔ انسانی مزاج اور رویوں پر بے پناہ تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے کہ آرزوؤں اور امنگوں کو کسی بھی قدغن کی زد میں لا کر دبانے کی کوشش کی جائے تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
ڈراموں اور فلموں میں لباس کیسا ہونا چاہیے، ان کا موضوع کیا ہونا چاہیے یا ان میں کن مسائل کو دکھانا چاہیے اور کیا نہیں؟ یہ طے کرنے کیلئے پیمرا یا عدالت عالیہ کو فنون لطیفہ، برصغیر کی صدیوں پر مبنی ثقافتی تاریخ اور عصر حاضر کے بدلتے ہوئے سماجی اور پرفارمنگ آرٹ کے تقاضوں کو جاننا اور ان علوم پر دسترس رکھنا بیحد ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اداروں کے پاس نہ تو اس کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی ان اداروں کو سماج کی اخلاقیات طے کرنے کا حق حاصل ہے۔ کم سے کم تفریح کے ذرائع کو بے حیائی اور پارسائی کے پلڑوں میں تولنا بند کیجئے تاکہ ہمارے سماج کو کتھارسس کیلئے کم از کم یہ ذرائع تو میسر آ سکیں۔