بدقسمتی سے وطن عزیز میں ہمیشہ سے آزادی اظہار پر قفل لگانے کی روایت برقرار رکھی گئی ہے۔ کبھی کسی موقع پر ایک بڑے سچ پر بحث و مباحثہ نہیں کیا گیا۔ سچ کو ہمیشہ سات پردوں میں رکھ کر سماج سے چھپا کر رکھا گیا ہے۔ ان سماجی موضوعات پر اہل قلم کو لکھنے کی اجازت کبھی نہیں دی گئی جو سماجی تبدیلی کے آئینہ دار ہو سکتے تھے۔ فلم اور ڈرامہ تو بہت دور کی بات ہے، کبھی اخبار، ریڈیو یا ٹی وی پر بے باک موضوعات پر گفتگو کی اجازت نہیں ہوتی۔ ادھر تو ایسے احباب بھی ہیں جو سیاست دانوں کے احتساب کو جمہوریت کے لیے خطرہ، جرنیلوں کے احتساب کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ اور ججوں کے احتساب کو عدلیہ کی آزادی پر قدغن قرار دیتے ہیں۔
ہر دور میں ایسے اقدامات کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جن سے معاشرے میں جمود ٹوٹ سکے۔ جہاں تک فنون لطیفہ کا تعلق ہے وہاں بھی ہر دور میں فلم، ڈرامہ، ناول، افسانہ یا شاعری پر نئے موضوعات پر بات چیت کرنے کو گراں ہی سمجھا گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادب پر چونکہ دانشوروں کی اجارہ داری ہوتی ہے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہاں ان موضوعات پر قلم اٹھایا جانے لگا جن کو سماج سات پردوں میں چھپا کر رکھتا ہے۔
ادبی اجلاسوں میں چاہے وہ پاک ٹی ہاؤس میں ہوں یا لاہور پریس کلب میں، وہاں بات چیت شروع ہونے لگی۔ اسی طرح دوسرے شہروں کے چائے خانوں، ادبی مراکز اور پریس کلبوں کے دالانوں میں بات چیت کا آغاز ہوا مگر بدقسمتی سے فلم اور ڈرامہ چونکہ دانشوروں کے حلقہ سے نکل کر عوام میں آ جاتا ہے وہاں پر اگر کسی بڑے سماجی موضوعات پر کسی سکرپٹ رائٹر نے کچھ لکھا اور ڈائریکٹر نے اس سکرپٹ کو عکس بند کر کے فلم یا ڈرامہ کی صورت میں ریڈیو، ٹیلی ویژن یا سکرین پر پیش کر دیا تو اس فلم یا ڈرامہ پر پابندی لگا دی گئی۔
پچھلے دس سالوں میں تین فلموں اور چار سے پانچ ڈراموں پر پابندی لگ چکی ہے۔ عاشر عظیم کی فلم ' مالک'، فلم ' جوائے لینڈ' اور سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم ' زندگی تماشہ' ان میں شامل ہیں۔ حال ہی میں جیو ٹی وی سے نشر ہونے والے ڈرامہ ' حادثہ' پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ ڈرامہ کے رائٹر زین جبل عاصم اور ڈائریکٹر وجاہت رؤف ہیں جو کہ ایک منجھے ہوئے ڈائریکٹر ہیں۔ اس سے قبل لاتعداد ڈرامہ سیریل بنا چکے ہیں۔ ایک دو فلمیں بھی بنائی ہیں۔ ڈرامہ سیریل ' حادثہ' پر الزام لگا کہ یہ ڈرامہ لاہور میں ہونے والے موٹروے ریپ کیس پر بنایا گیا تھا۔ اس واقعہ پر ایک ناول 'کرول گھاٹی' بھی شائع ہو چکا ہے جسے معروف ادیب غافر شہزاد نے لکھا تھا۔
جیسا کہ سطور بالا میں لکھا گیا کہ ناول ادب کی صنف ہے اور ادب پر بات چیت چائے خانوں میں، پریس کلبوں میں دانشور کرتے ہیں۔ فکشن لکھنے میں جو مہارت دکھائی جاتی ہے اس وجہ سے کسی بڑے سانحہ پر لکھی گئی تخلیق پر بات کر کے اس کے اسباب و محرکات پر گفتگو ہوتی ہے مگر فلم اور ڈرامہ عوام میں آ جاتا ہے۔ عوام چونکہ ابھی ہمارے جیسے معاشرے میں شعور کی اس سطح پر نہیں ہیں لہٰذا ایک بھونچال مچ جاتا ہے۔ ورنہ دنیا بھر میں ریپ کیسز پر فلمیں اور ڈرامے بن جاتے ہیں اور پھر عوامی سطح پر اس سانحہ پر بات چیت شروع ہوتی ہے تاکہ اس کا ادراک کیا جا سکے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت نہیں ہے۔ موٹروے سانحہ پر پہل کر کے غافر شہزاد نے ناول 'کرول گھاٹی' لکھا، دانشور حلقوں میں اس پر بات کی گئی مگر جب عوامی مکالمے کو شروع کرنے کے لئے زین جبل عاصم کے سکرپٹ کو وجاہت رؤف نے ڈرامے کی صورت میں ٹی وی چینل پر پیش کیا تو بھونچال مچ گیا۔ شاید ہمارے عوام کو بھی سچ کو برداشت کرنے اور اس کے ادراک کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ یاد رکھیں جب تک سانحہ یا واقعہ کو عوامی سطح پر پیش کر کے اس پر بات کر کے لایا نہیں جائے گا، تب تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے۔