شہدائے سانحہ کارساز کے اہلِ خانہ کی دہائیاں، 14 سال بیت گئے کیس تاحال پیشرفت کا منتظر

شہدائے سانحہ کارساز کے اہلِ خانہ کی دہائیاں، 14 سال بیت گئے کیس تاحال پیشرفت کا منتظر
پاکستان میں دہشت گردی کے ابھی زخم تازہ ہیں، دہشت گردی کا شکار خاندان کئی برس گزرنے کے باوجود اپنے پیاروں کو نہیں بھلا پائے۔ کراچی کے پسماندہ علاقے گولی مار میں انور علی کی بوڑھی ماں بستر مرگ پر ہے۔ ان کا بیٹا 14 برس قبل سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قافلے پر ہونے والے دو خود کش دھماکوں کے نتیجے میں 18 اکتوبر 2007 کو جاں بحق ہو گیا تھا۔ بستر پر ان کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی اور یہ ہمیشہ بیٹے کو یاد کرتی رہتی ہیں۔ ان کے لئے دعائیں کرتی رہتی ہیں۔

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کی آمریت اورغیر آئینی حکومت کے باعث خود ساختہ جلاوطن تھی۔ وہ 18 اکتوبر 2007 کو طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئی تو انکا کراچی ایئرپورٹ پر والہانا استقبال کیا گیا۔ کراچی ایئر پورٹ سے بینظیر بھٹو کا قافلہ مزار قائد کی طرف رواں دواں تھا جہاں انھوں نے مزار قائد سے متصل باغ جناح میں عوامی اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ جب قافلہ کراچی کی اہم شاہراہ فیصل کارساز کے مقام پر پہنچا تو ان کے قافلے پر دہشت گردوں نے دو خود کش حملے کیے جس کے نتیجے میں 130 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں گولی مار کراچی کا رہائشی 25 سالہ نوجوان انور علی بھی شامل تھا۔

انور علی کی بوڑھی ماں (نوری) کا سارا وقت ایک چھوٹے سے کمرے میں بستر پر ہی گزر جاتا ہے۔ اب وہ ضعیف العمر ہیں۔ جب ان سے انور کے بارے پوچھا تو وہ رو پڑیں، بول نہیں پا رہی تھیں۔ الفاظ بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ جواں سالہ بیٹے کی جدائی کے باعث وہ سوال کا جواب نہیں دے پا رہی تھیں۔ واقعے کو تو 14 برس گزر چکے ہیں لیکن بوڑھی ماں کے آج بھی زخم تازہ ہیں۔ وہ کچھ لمحے کے بعد بتانے کے قابل ہوئیں تو اس دوران جواں بیٹے کی جدائی کا ذکر کرتے ہوئے لب کپکپا رہے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ انور کو کیسے بھول سکتی ہیں؟ کوئی چھوٹا بچہ تھوڑا ہی تھا۔ وہ میرا جواں سال بیٹا تھا۔ یقین نہیں آ رہا کہ اس کے ساتھ ایسے ہوا ہے۔ اس نے تو ابھی دنیا ہی نہیں دیکھی تھی۔ ایک ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے تمام شگون پورے کرئے۔ انہوں نے زور سے سانس لیتے ہوئے کہا کہ کاش بیٹے کی جگہ میں ہی اس دنیا سے چلی جاتی۔ بینظیر بھٹوکے جلسے میں جانے سے قبل ان کے لئے کھانا اور چائے تیار کیا تھا۔ کسی نے باہر بلایا کہ بینظیر بھٹو کا جلسہ ہے، اس میں چلتے ہیں۔ اس نے کھانا بھی نہیں کھایا اور جلسے میں چلا گیا۔ اس نے مجھے بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ جلسے میں جا رہا ہے۔

انور کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی جلسوں میں آتا جاتا نہیں تھا، لیکن اس روز بینظیر کے جلسے میں چلایا گیا تھا۔ میں ساری رات انور کا انتظار کرتی رہی۔ سب گھر والے کہہ رہے تھے کہ بینظیر کے جلسے میں گیا ہے، دیر سے واپس آئے گا۔ سب ہی مجھے آسرا دیتے رہے کہ آپ سو جائیں۔ ماں تھی کیسے سوتی؟ مجھے سکون نہیں آ رہا تھا۔ بس پھر رات کو دیر سے انور علی کی لاش ہی گھر آئی۔ انور کوآخری دنوں میں بینک میں دہاڑی پر ملازمت بھی مل گئی تھی۔

انور علی کے بڑے بھائی کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی تو انور کی ماں نے اپنی تسلی کے لئے پوتے کا نام انور علی ہی تجویز کیا۔ بیٹے نے دادی کی خواہش پران کا نام انور ہی رکھا۔

انور علی کی بہن عزیزاں کا کہنا ہے کہ ان کی ماں اپنے بیٹے کو ہر وقت یاد کرتی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انور اس دنیا سے چلا گیا ہے تو وہ کیوں زندہ ہیں؟ انھیں بھی اس دنیا سے چلا جانا چاہیے۔ وہ واقعے کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ہماری ماں رات کو سو کر اٹھیں اور رات کو دو بجے ان کے گھر آ گئیں۔ بولیں انور علی نہیں آیا، وہ اتنا تو گھر سے دور جاتا ہی نہیں۔ بعد میں پتہ چلا بینظیر بھٹو کے قافلے میں دھماکہ ہوا ہے۔ وہ اپنے بھائی انور کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ انھیں فٹبال کا شوق تھا۔ بہت معصوم تھا۔ کسی سے ان کا کبھی کوئی تنازع بھی نہیں ہوا۔ گھر سے فٹبال گراؤنڈ تک جاتا تھا اور اپنے کام میں مصروف رہتا تھا۔

انور کے خاندان کا ہر فرد دکھی ہے۔ ان کے بڑے بھائی داد رحمان سے جب پوچھا تو وہ جواب دینے کے بجائے آہیں بھرنے لگا۔ انور کو یاد کر کے آنسو نہیں روک پایا۔ خاموش ہو گیا۔ خود پر قابو رکھنے کے بعد بولا، ہمارا جوان بھائی تھا۔ اسے بھول نہیں پا رہے ہیں۔ وہ کبھی جلسے جلوسوں میں نہیں گیا تھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کے جلسے میں گیا تھا۔ وہ بھی فٹ بال ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے انہیں جانے کے لئے مجبور کیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار بینظیر بھٹو کے جلسے میں گیا، پھر کبھی واپس نہیں آیا۔

داد رحمان کا کہنا ہے کہ انور کے سوئم پر قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنما آئے اور ہم لوگوں سے افسوس کا اظہار کیا۔ پیپلز پارٹی والوں نے شہید انور کے چھوٹے بھائی کو چپڑاسی کی ملازمت، ایک فلیٹ اور 4 لاکھ روپے نقد دیے۔ ان کا کہنا ہے کہ قائد آباد لانڈھی میں جو فلیٹ دیا گیا ہے کہ وہ خستہ حال تھا۔ وہ ہمارے لئے قابل استعمال ہی نہیں ہے۔ ایک تو ہمارے آباؤ اجداد کے گھروں سے بہت دور ہے۔ دوسرا ٹوٹا پھوٹا ہونے کے باعث زیر استعمال نہیں ہے۔

داد رحمان کو پیپلز پارٹی کی قیادت سے ایک گلہ بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بلاول ہاؤس میں شہدا کے اہلخانہ کو فلیٹ کی چابیاں دی گئی تھیں تو اس تقریب میں آصف علی زرداری نے وعدہ کیا تھا کہ عیدین کے موقع پر پارٹی کے کارکن اور رہنما شہدا کے اہلخانہ سے ملنے ان کے گھر جائیں گے لیکن ابھی تک آصف علی زرداری کا یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ ان کے آنے سے ہماری بوڑھی ماں اور خاندان کے دوسرے افراد سے ملتے تو تسلی ہو جاتی۔ ہر سال 18 اکتوبر کو شہدا کی یاد میں جلسہ کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری کے لئے ہمارے ہی علاقے میں کارنر میٹنگز ہوتی رہتی ہیں جس میں پیپلز پارٹی کے رہنما شریک ہوتے ہیں لیکن ہمیں کسی نے بلایا اور نہ ہی شہید کے خاندان کی طرف وہ مڑ کر آئے۔ ہم صرف بھٹو اور بینظیر کے نام پر انہیں ووٹ دے دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اماں بیمار رہتی ہیں۔ انہیں شوگر، بلڈ پریشر اور بیٹے کا دکھ ہے۔ اب وہ بستر پر ہی رہتی ہے۔ ہم سب بھائی بہن اپنے بچوں والے ہیں۔ کم آمدنی والے لوگ ہیں اور مل کر اماں کی ادویات کا بندوبست کرتے ہیں۔ اور دیگر اخراجات پورے کرتے ہیں۔

سانحہ کارساز میں جاں بحق ہونے والی اکثریت کا تعلق کراچی سے ہے۔ ان میں بہت سارے خاندانوں کا تعلق لیاری، چنیسر گوٹھ اور ملیر سے ہے۔ کارساز واقعے پر سٹوری کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کی قیادت سمیت ضلعی قیادت اور متاثر خاندانوں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس حوالے بات کرنے کو تیار نہیں ہوئے، کیونکہ ان کا میڈیا پر بھروسہ نہیں رہا۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سٹوری بھی پیپلز پارٹی کے خلاف ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم پیپلز پارٹی والوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے متاثر خاندانوں کو ملازمت دی ہے اور مالی مدد بھی کی۔

چنیسر گوٹھ کے محمد جاوید بھی کارساز سانحے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ ان کے خاندان کو بھی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے ایک فلیٹ، ملازمت اور کچھ کیش رقم ادا کی ہے۔ جاوید کی بیوہ کی دوسری شادی ان کے دیور کے ساتھ کرائی گئی ہے۔ جاوید کی بڑی بیٹی کی شادی کرائی گئی ہے۔ ان کی والدہ اور بھائی سے جب بات ہوئی تو انھوں نے اپنا موقف دینے سے صاف انکار کیا کہ وہ بات نہیں کریں گے۔ لیکن جاوید کے متعلق بات کرنے کے دوران ان کی ماں کا دکھ ان کے چہرے پر عیاں تھا۔

کراچی سانحہ کارساز کو 14 برس گزر چکے ہیں لیکن متعلقہ حکام دو خودکش دھماکے کرنے کے ذمہ داروں کا ابھی تک تعین نہیں کر سکے۔ دھماکے کے بعد اب تک تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطح کی تین کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور تمام کمیٹیاں حتمی نتیجے پر پہنچنے میں قاصر رہی ہیں۔ بینظیر بھٹو کے قافلے پر حملے کی تحقیقات کے لئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے تحقیقاتی ٹربیونل قائم کیا جس کی سربراہی سابق جسٹس ڈاکٹر غوث محمد کو سونپی گئی۔ ٹربیونل نے 40 سے زائد گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے ہی تھے کہ اس دوران بینظیر بھٹو روالپنڈی میں 27 دسمبر کو جان لیوا حملے میں شہید ہو گئیں۔ پاکستان میں عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے وفاق سمیت سندھ میں حکومت بنا لی۔ پی پی حکومت کی جانب سے از سرِ نو تحقیقات کرنے کا اعلان کیا اور پارٹی نے مؤقف اختیار کیا کہ ارباب غلام رحیم کی جانب سے تشکیل شدہ ٹربیونل قابل بھروسہ نہیں ہے۔ اس تحقیقات کے لئے نیا فورم تشکیل دیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کا پورا حکومتی ( 2008 سے 2013 ) تک کا دور گزر گیا لیکن اس سلسلے میں کوئی نیا ٹربیونل نہیں بنایا گیا اور نہ ہی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ ابتدائی دنوں میں کراچی پولیس نے کالعدم تنظیم کے کارندے قاری اختر کو کارساز سانحہ میں گرفتار کیا۔ پولیس کے مطابق بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں قاری اختر کا ذکر کیا تھا کہ وہ ان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ پولیس نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج کے روبرو قاری اختر سے متعلق رپورٹ پیش کی کہ سانحہ کارساز میں ان کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔

کارساز سانحہ کے 4 سال بعد 2011 میں اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کہا تھا کہ اس واقعہ کی مزید تحقیقات بند کر دی گئی ہے کیونکہ آصف علی زرداری نے کارساز سانحے کی مزید تحقیقات سے روک دیا ہے۔ مرزا کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے انہیں بتایا تھا کہ روالپنڈی سانحے جس میں بینظیر بھٹو شہید ہو گئی تھیں، اس سے متعلق تحقیقات ہو رہی ہیں اور کارساز سانحے کی تحقیقات بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی تحقیقات متاثر کر سکتی ہیں۔ اس لئے کارساز سانحے کی تحقیقات فی الوقت روک دی جائیں۔ اس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 2012 میں ڈی آئی جی کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ یہ کمیٹی بھی کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکی کہ واقعے کے اصل حقائق کیا ہیں۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) چیف کی سربراہی میں 5 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ اس دوران بینظیر بھٹو کے گارڈ شہنشاہ اور بلال شیخ دونوں الگ الگ اوقات و واقعات میں مارے گئے تھے۔ شہنشاہ کو کلفٹن کے علاقے میں گھر کے باہر 22 جولائی 2008 کو قتل کیا گیا جب کہ بلال شیخ جولائی 2013 کو جمیشد کوراٹر میں خودکش حملے میں مارا گیا تھا۔ جس کا الزام لیاری گینگ وار سے تعلق رکھنے شاہد بکک پر لگایا گیا۔ بعدازاں شاہد بکک عدالت سے عدم شواہد کی بنا پر اس مقدمے سے بری ہو گیا تھا۔

بینظیر بھٹو پر حملے کا کیس سرکار کی مدعیت میں پہلے روز درج کیا گیا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے دوسری ایف آئی آر درج کروانے کے لئے سیشن کورٹ سے رجوع کیا۔ سیشن کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت کی مرضی کے مطابق دوسری ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تو اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کی حکومت نے سیشن کورٹ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ جب عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت بن گئی تو صوبائی حکومت نے سیشن کورٹ کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر حکومت سندھ کی درخواست واپس لے لی اور سیشن کورٹ کے حکم کے مطابق دوسری ایف آئی آر درج کر لی، جس میں چوہدری پرویز الٰہی اور موجودہ وفاقی وزیر اعجاز شاہ اور ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل حمید گل کے نام شامل کر لیے گئے تھے۔ مقدمے کے اندراج کے بعد ان کے خلاف شواہد نہیں مل سکے اس وقت کے تفتیشی افسر ڈی ایس پی نواز رانجھا جو بعد میں ایک حملے میں مارے گئے تھے، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جیش محمد تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی سمیت کچھ گرفتار افغان طالبان سے تفتیش کی ہے لیکن اس تفتیش کے بعد بھی پولیس حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی۔ کیس کے تفتیشی افسر خالد رانجھا کے قتل کے بعد اس وقت کے ایس پی نیاز کھوسو کو تفتیش سونپی گئی۔ نیاز کھوسو 2014 میں ریٹائرڈ ہو گئے جس کے بعد مقدمہ سی ٹی ڈی کو منتقل کر دیا گیا جو تاحال کسی پیشرفت کے بغیر دستاویزات میں داخل ہے۔