پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اگرچہ 2017 کی افراد شماری پر متعدد اختلافات سامنے آئے تاہم اس کے مطابق وطن عزیز کی آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق 96.47 فیصد شہری مسلمان جبکہ 3.57 فیصد کا تعلق مذہبی اقلیتوں سے تھا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2018 میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 36 لاکھ 30 ہزار تھی جن میں سے 17 لاکھ 70 ہزار ہندو، 16 لاکھ 40 ہزار مسیحی، ایک لاکھ 60 ہزار احمدی، 31 ہزار 5 سو 43 بہائی، 8 ہزار 8 سو 52 سکھ، 4 ہزار 2 سو 35 پارسی اور ایک ہزار 8 سو 84 بودھ تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی کے مطابق اگست 2022 میں اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41 لاکھ ایک ہزار تک پہنچ گئی۔ پس اقلیتی ووٹرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے مختلف حلقوں میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
2002 میں مخلوط انتخابات کے نظام کی بحالی کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے لئے یہ راہ ہموار ہوئی کہ وہ ملکی سیاسی نظام کے مرکزی دھارے میں شامل ہو سکیں۔ عورتوں اور اقلیتوں کے لئے سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں کے علاوہ سیاسی پارٹیاں اقلیتی امیدواران کو اپنی پارٹی کی طرف سے جنرل سیٹوں پر بھی نامزد کر سکتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اقلیتی افراد اپنے حلقہ کے جنرل انتخاب کے لئے نامزد اکثریتی امیدوار کو ووٹ دے کر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ مخلوط انتخابات کے نظام کے فعال ہونے کے بعد پاکستان میں 2008، 2013 اور 2018 میں عام انتخابات ہوئے۔ انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے طور پر قوم سے کچھ وعدے کرتی ہیں۔ بعد میں ان کا ایفا ہونا ایک اہم سوال ہے۔
حال ہی میں ادارہ برائے سماجی انصاف ( Centre for Social Justice) نے ایک تحقیقی رپورٹ 'وفاؤں کا تقاضا ہے' شائع کی ہے جس میں سات بڑی سیاسی جماعتوں کے 2008، 2013 اور 2018 کے عام انتخابات کے لئے پیش کردہ انتخابی منشوروں میں مذہبی اقلیتوں سے کئے گئے وعدوں اور ان پر عمل درآمد کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ (نواز)، پاکستان مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلسِ عمل (جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام) کے جاری کردہ منشوروں میں وعدے اور بعد ازاں کارکردگی کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی وعدوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں۔ یہ بھی ہوا کہ اقتدار میں آنے والی جماعتوں نے پرانے وعدے ایفا کئے بغیر انتخابی منشور میں نئے وعدے شامل کر لئے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اقلیتوں کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
رپورٹ کے مطابق سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں ایک تہائی وعدے ایک جیسے تھے۔ ان میں قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کمیشن کا قیام، مذہب کی جبری تبدیلی کو جرم قرار دینا، نصاب پر نظر ثانی، امتیازی قوانین کا جائزہ لینا، متروکہ وقف املاک بورڈ میں اقلیتوں کی نمائندگی میں اضافہ اور ملازمت کوٹے کا نفاذ شامل تھا۔ وعدوں کے مشترک ہونے کے باوجود ان کا پورا نہ ہونا عزم کے فقدان کی بابت اشارہ کرتا ہے۔ منشوروں میں کچھ منفرد وعدے بھی شامل تھے مثلاً تکفیرکے قوانین کے غلط استعمال کو روکنا وغیرہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں عمومیت سے ہٹ کر بھی سوچ سکتی ہیں۔ کچھ فرضی مسائل بھی تھے اور ان کا حل غیر منطقی مثلاً اقلیت کی اصطلاح کو غیر مسلم سے تبدیل کرنا۔ غالباً اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں مذہبی آزادی اور شہریوں کے مساوی حقوق سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انتخابی منشوروں میں سماجی اور اقتصادی ترقی پر توجہ کم ہوئی ہے اور خیراتی اقدامات پر زیادہ۔
اس تحقیقی رپورٹ کے دوسرے حصے میں مارچ 2008 سے ستمبر 2022 تک ان وعدوں کو پورا کرنے کے لئے کئے گئے اقدامات کو سات عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ سات میں سے پانچ اقدامات پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ محض دو اقدامات میں جزوی کامیابی حاصل ہوئی جن میں سے ایک اسلامیات کے متبادل اقلیتی طلبہ کے لئے ان کی اپنی مذہبی تعلیم کے مضمون کو متعارف کروانا۔ دوسرا وفاقی اور صوبائی کابینہ میں کچھ اقلیتی نمائندگان کا وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینا۔
بیشتر سیاسی جماعتیں اقلیتوں کے مسائل حل کرنے اور ان کے خلاف پراپیگنڈہ کے وقت ان کا ساتھ دینے میں ناکام نظرآئیں مثلاً جبری تبدیلی مذہب کے قانون پر بحث۔ سیاسی تقاریر میں اقلیتوں کو بااختیار بنانے کی بات ہوئی لیکن اقتدار میں موجود جماعتیں کمزور اقدامات پر ہی انحصار کرتی رہیں۔ مختلف حکومتوں نے قانون سازی کی بجائے انتظامی حکم نامے (نوٹیفکیشنز) جاری کرنے پر زیادہ انحصار کیا۔ لہٰذا پالیسی اقدامات میں نفاذ کے طریقہ کار اور مضبوط قانونی بنیاد کا فقدان تھا۔ اقلیتوں کے لئے ملازمتوں میں کوٹہ کی پالیسی کی ناکامی میں یہ عنصرغالب رہا۔ اقلیتی کمیشن کا قیام قانون سازی کے ذریعے عمل میں نہ آ سکا۔ مقتدر سیاسی جماعتیں خود بھی مذہبی انتہا پسندی کا شکار رہیں اور اقلیتی افراد اور فرقوں کے خلاف پُر تشدد سرگرمیوں کو بھی نہ روک سکیں۔ اکثر جماعتیں سیاسی سرگرمیوں میں مذہب کا بے تحاشا استعمال کرتی رہیں۔ 2021 میں لاہور ہائی کورٹ اور پنجاب اسمبلی کی عمارتوں پر مذہبی علامات کا اضافہ اور یونیورسٹی کی سطح پر مذہبی تعلیم کا نفاذ لازمی قرار دیا جانا اس کی چند مثالیں ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے چند ایسے مثبت اقدامات بھی اٹھائے جن کا وعدہ ان کے منشور کی بجائے کسی دوسری جماعت کے منشور میں کیا گیا تھا۔ مثلاً پاکستان مسلم لیگ نواز نے اقلیتی طلبہ کے لئے تعلیمی کوٹے کا وعدہ کیا تھا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کے تخفظ کی بات کی تھی۔ تاہم پاکستان تحریکِ انصاف کی پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلبہ کے لئے 2 فیصد مخصوص نشستوں کی منظوری دی۔
ادارہ برائے سماجی انصاف نے اپنی اس رپورٹ میں سیاسی پارٹیوں کے لئے زبردست سفارشات بھی ترتیب دی ہیں جن پر عمل درآمد انتہائی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر انتخابی منشور کو نمایاں جگہ دیں۔ انتخابی منشور کی پاسداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور وعدوں پرعملدرآمد کے لئے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا جائے۔ مذہبی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کے مسائل کے لئے پارلیمانی کاکس بنائی جائے جس میں پالیسی امور پر مشاورت کے لئے سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی، سماجی ہم آہنگی، تعلیمی پالیسی اور اقلیتوں کی قومی دھارے میں شمولیت (سماجی، اقتصادی اور سیاسی) کے حوالے سے مخصوص تفصیلی سفارشات ہیں جنھیں سیاسی پارٹیوں کے منشور میں شامل کرنے اور ان پر عمل کرنے سے وطن عزیز میں مذہبی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کی صورتحال میں خاطر خواہ بہتری رونما ہو سکتی ہے۔
زیرنظر رپورٹ ایک طرف تو قومی سیاسی پارٹیوں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتی ہے کہ انہیں مذہبی اقلیتوں کے ایشوز پر نہایت سنجیدگی سے غوروفکر کے بعد ان سے متعلقہ وعدے اپنے سیاسی منشور میں شامل کرنے چاہئیں، دوسرے ان وعدوں کی تکمیل کے لئے عملی اقدامات اُٹھانے کے لئے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کرنا چاہئیے۔ مزید براں یہ رپورٹ اقلیتی ووٹرز کو آگاہی دینے کے لئے نہایت کارآمد ہے۔ آئندہ انتخابات کے لئے جب اکثریتی نمائندے ان کے پاس آئیں گے تو وہ پارٹی کی پچھلی کارکردگی کے حوالے سے جوابدہ ہوں گے۔ سابقہ انتخابات کے منشوروں میں وعدوں پر اُٹھائے گئے اقدامات اور آئندہ انتخابات کے منشوروں میں کئے گئے وعدوں کا جائزہ لینے کے بعد اقلیتی ووٹرز اپنے ووٹ کی طاقت کا مؤثر استعمال کرنے کے حوالے سے بہتر طور پر آگاہ ہوں گے۔ پھر مذہبی آزادی اور شہری اور سیاسی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد اور اداروں کے لئے یہ ریسورس میٹیریل بھی ہے۔
نوٹ: تحقیقی رپورٹ 'وفاؤں کا تقاضا ہے' انگریزی میں ‘Promises to Keep & Miles to Go’ کے نام سے دستیاب ہے۔
نبیلہ فیروز انسانی حقوق کی کارکن اور فری لانس اخبار نویس ہیں۔ مصنفہ انگریزی اور اردو اخبارات میں لکھتی ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کا اکاؤنٹ NabilaFBhatti کے نام سے ہے۔ ان سے Nabila_Feroz@hotmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔