جنرل باجوہ کی بااثر بھارتی شخصیات سے مڈل ایسٹ میں ملاقات کا انکشاف

ھارتی صحافی نے کہا کہ ان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور جنرل باجوہ کی ملاقاتوں کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس بارے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن ایک دو مشرق وسطی کے ممالک میں ان کی ملاقاتیں ہوئی تھیں لیکن ان میں براہ راست بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر شامل نہیں تھے بلکہ چند اور لوگ تھے۔ پاکستان اور بھارت کی بیک ڈور ڈپلومیسی چلتی رہی اور یہ مشرق وسطی میں ملتے رہے۔

جنرل باجوہ کی بااثر بھارتی شخصیات سے مڈل ایسٹ میں ملاقات کا انکشاف

بھارتی صحافی وے بھوو سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات کی بحالی کے لئے بیک ڈور ڈپلومیسی چلتی رہی جس کے لئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے متعدد با اثر لوگوں سے مڈل ایسٹ میں ملاقاتیں بھی کیں۔ جس کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دورہ پاکستان کے لئے رضامند بھی ہو گئے تھے۔
سینئر صحافی اعزاز سید کے یوٹیوب پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بھارتی صحافی وے بھوو سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے خطے میں امن و استحکام کے لئے پاکستان سے تعلقات کی بحالی کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ بھارت کی جانب سے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول اپنی حکومت کی جانب سے امن کی کوشش کر رہے تھے جب کہ پاکستان کی جانب سے اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر (نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر) لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ اس میں مصروف عمل تھے۔ دونوں نے کئی بیرون ملک مذاکرات کیے۔ بحیثیت نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر خان جنجوعہ نے 6 دسمبر 2015 کو بنگکاک کا دورہ کیا اور وہاں پر   بھارت کے ساتھ خفیہ قومی سلامتی کی سطح پر مذاکرات کیے۔ ملاقات ہندوستانی ہم منصب اجیت دوول کے ساتھ ہوئی جس میں دہشت گردی، جموں و کشمیر میں تنازعات کے حل اور دیگر دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور "تعمیری" تعاون کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
بھارتی صحافی نے کہا کہ چونکہ ناصر خان جنجوعہ نے 27 جون 2018 کو استعفا دے دیا تھا تو ان کے بعد سے اس سارے عمل میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ براہ راست شریک ہوئے۔
صحافی اعزاز سید نے کہا کہ پاکستان میں زبان زد عام ہے کہ جنرل باجوہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دورہ پاکستان کے لئے رضامند بھی کر لیا تھا۔ 
صحافی اعزاز سید نے سوال کیا کہ کیا جنرل باجوہ کی اجیت دوول سے ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں جس کے جواب میں بھارتی صحافی نے کہا کہ ان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور جنرل باجوہ کی ملاقاتوں کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس بارے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن ایک دو مشرق وسطی کے ممالک میں ان کی ملاقاتیں ہوئی تھیں لیکن ان میں براہ راست بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر شامل نہیں تھے بلکہ چند اور لوگ تھے۔
پاکستان اور بھارت کی بیک ڈور ڈپلومیسی چلتی رہی اور یہ مشرق وسطی میں ملتے رہے۔
بھارتی صحافی نے مزید کہا کہ نریندر مودی دو بار بھاری اکثریت کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم بنے ہیں اور وہ اچھے خاصے کٹر سیاست دان اور کٹر انتظامی انسان ہیں۔ وہ تمام تر معاملات کے حوالے سے فیصلے خود لیتے ہیں۔ ان سے پوچھے بغیر یا ان کے علم میں لائے بغیر  کوئی بھی وزیر کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں اٹھا سکتا۔ یعنی اگر کوئی وزیر نہیں کر سکتا تو کوئی ڈپلومیٹ یا بیوروکریٹ بھی نہیں کر سکتا۔
واضح رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی جس کے بعد کشمیریوں کے احتجاج کو روکنے کے لئے جموں و کشمیر میں کئی ماہ تک لاک ڈاؤن نافذ کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام کے بعد سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی آ گئی جو کہ تاحال کم نہیں کی جا سکی۔