بلے کا انتخابی نشان:  پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بحال کردیا

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان کی حقدار ہے۔ اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دے اور پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ ویب سائٹ پر جاری کرے۔

بلے کا انتخابی نشان:  پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بحال کردیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلے کا نشان واپس مل گیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بحال کردیا۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انور اور جسٹس ارشد علی نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس کی سماعت کی۔ جس میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کرنے والے فریقین کے وکلا نے دلائل دیے۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار  دیتے ہوئے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا بحال کر دیا  اور  کہا کہ الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔ عدالت نے تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی بلے کے نشان کی حقدار ہے۔ اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دے اور پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفیکیٹ ویب سائٹ پر جاری کرے۔

پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن اور انتخابی نشان کیس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے ہیں کہ کبھی کوئی تو کبھی کوئی لاڈلا بن جاتا ہے۔

قبل ازیں پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے گزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے۔ دوران سماعت قاضی جاوید ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے موکل پی ٹی آئی کے سابقہ ضلعی جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔ جنہیں میڈیا سے پتا چلا کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہورہے ہیں۔ وہ الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کو موقع نہیں دیا گیا۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیا تو آپ کو چاہیے تھا کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کرتے۔

آپ اگر پارٹی سے تھے تو پارٹی نشان واپس لینے پر آپ کو اعتراض کرنا چاہیے تھا آپ نے نہیں کیا۔ جس پر قاضی جاوید نے کہا کہ ہمیں تو انتخابات میں موقع نہیں دیا گیا اس کے خلاف الیکشن کمیشن گئے۔

قاضی جاوید ایڈووکیٹ نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہے۔ ہائیکورٹ صرف صوبے کو دیکھ سکتا ہے۔ جس پر جسٹس ارشد علی نے استفسار کیا کہ کیا ہر صوبے میں الگ الگ کیس کرنا چاہیے تھا ان کو؟ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا تو یہاں پر کیسے کیس نہیں کرسکتے؟

جسٹس اعجاز انور نے پوچھا کہ جو الیکشن ہوئے اس میں تمام ارکان منتخب ہوئے یا صرف صوبے کی حد تک؟ جس پر قاضی جاوید ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ پورے ملک کے نمائندے منتخب ہوئے۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ یہاں پر الیکشن ہوا ہے اور الیکشن کمیشن نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن پشاور میں ہوا ہے تو اس کو یہاں کیوں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جس پر قاضی جواد ایڈووکیٹ نے کہا کہ دائرہ اختیار کے حوالے سے عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔ یہ تو لاہور ہائیکورٹ بھی گئے تھے وہاں پر ان کی درخواست خارج ہوئی۔

جسٹس اعجاز انور نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے آرڈر میں لکھا ہے کہ پشاور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ کیس زیرسماعت ہے پشاور ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیں۔

دوران سماعت وکیلِ شکایت کنندہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ پی ٹی آئی لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کررہی ہے تو اپنے کارکنوں کو بھی یہ فیلڈ دے۔ پارٹی کے کارکنوں کو پتا نہیں تھا کہ الیکشن کہاں پر ہیں۔ پھر ایک بلبلہ اٹھا اور انٹرا پارٹی الیکشن ہوا۔

جسٹس اعجاز انور نے ریمارکس دیے کہ پھر وہ بلبلہ بھی پھٹ گیا۔ یہاں پر کبھی کون تو کبھی کون لاڈلا بن جاتا ہے۔ آپ سیاسی باتیں نہ کریں قانونی نقطے پر آ جائیں۔ آپ بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ انٹراپارٹی الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے۔ ان سے نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔

وکیل نے کہا کہ جو پارٹی قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کراسکتی تو اس کو کیوں سپورٹ کروں؟ انتخابی نشان بدلتے رہتے ہیں۔ ہر الیکشن کے لیے نیا نشان بھی دیا جاسکتا ہے۔

بعد ازاں کیس میں فریق چارسدہ کے جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرا موکل ضلعی صدر رہ چکا ہے۔ ایک بیان پر جہانگیر کو پارٹی سے فارغ کردیا گیا۔

آئین کے مطابق عہدیداروں کو منتخب نہیں کیا گیا جو لازمی ہے۔ عہدیداروں کی اپڈیٹڈ فہرست الیکشن کمیشن کو دینی ہوتی ہے۔ انتخابی نشان بھی سیاسی پارٹی کو اس کی کریڈیبلٹی کے مطابق دیا جاتا ہے۔ پارٹی کے آئین اور ووٹر کے تحفظ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔