ٹیری سمادھی سخت سکیورٹی کے حصار میں دوبارہ زیرِ تعمیر

ٹیری سمادھی سخت سکیورٹی کے حصار میں دوبارہ زیرِ تعمیر
پاکستان کے صوبے خیبر پختونحوا کے جنوب میں واقع ضلع کرک میں قریباً سات ماہ قبل ہندو مذہبی پیشوا کی سو سال پرانی سمادھی پر ہونے والے حملے کے بعد زیارت کی دوبارہ تعمیر پولیس کی سخت سکیورٹی میں جاری ہے اور توقع ہے کہ آئندہ چند ماہ میں کام مکمل ہونے کے بعد عمارت کو ہندو زائرین کے لئے کھول دیا جائے گا۔

1920 سے قبل تعمیر ہونے والی ہندوؤں کے مشہور مذہبی پیشوا شیری پرمنہاس جی مہاراج کی سمادھی ضلع کرک کے ایک دور افتادہ گاؤں ٹیری میں سطح سمندر سے 55 فٹ کی بلندی پر ایک اونچے مقام پر واقع ہے۔ یہ سمادھی پاکستان میں ہندوؤں کا چوتھا مقدس مقام سمجھی جاتی ہے۔

جب ہم سمادھی دیکھنے وہاں پہنچے تو پولیس کی سخت سکیورٹی میں تعمیراتی کام جاری تھا۔

شیری پرمنہاس جی مہاراج کی سمادھی قریباً چھ سے سات مرلے کے احاطے پر پھیلی ہوئی ہے۔ جب ہم نے سمادھی کی زیر تعمیر عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ہمیں وہاں تعینات پولیس اہلکاروں نے عمارت کے اندر جانے سے سختی سے منع کر دیا۔ کافی منت سماجت کے بعد ہم مقامی صحافی کے توسط سے اندر جانے میں کامیاب ہوئے لیکن پولیس اہلکاروں نے ہمیں سمادھی کے اندرونی حصے کی تصویریں بنانے کی اجازت نہیں دی۔

وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک اہلکار نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ سمادھی پر حملے کے بعد یہاں حکومت کی طرف سے سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے اور زیارت کے اندر جانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ تاہم، انہوں نے پابندی کی وجہ نہیں بتائی۔

اہلکار کے مطابق ’جب سمادھی پر حملہ ہوا تھا تو اس میں کئی پولیس اہلکار معطل جب کہ چند تو نوکری سے برخاست کیے گئے تھے۔ اس وجہ سے اب ہمارے افسر بہت محتاط ہیں، وہ کوئی خطرہ نہیں مول سکتے۔’



انہوں نے کہا کہ انہیں افسران کی طرف سے صاف احکامات دیے گئے ہیں کہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اندر جانے نہیں دیا جائے۔’ آپ چونکہ مقامی صحافی کے ساتھ آئے ہیں، اس وجہ سے صرف عمارت دیکھنے کی اجازت دے رہے ہیں لیکن اگر اپ کو میری نوکری عزیز ہے تو براہ مہربانی تصویریں مت بنائیں، ہماری نوکری چلی جائے گی۔’ سمادھی پر ڈیوٹی دیتے ہوئے ہمیں چار اہلکار نظر آئے۔

گذشتہ سال دسمبر میں سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے سمادھی کی عمارت کی توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر حملہ کر دیا تھا اور بعد میں اسے آگ لگائی تھی جب کہ زیارت کی عمارت کو بھی گرایا گیا تھا جس سے عمارت ناقابل استعمال ہو گئی تھی۔

مقامی علما اور مذہبی افراد پر مشتمل کمیٹی کے افراد کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ زیارت کی عمارت میں توسیع نہیں کی جائے گی اور اس سلسلے میں فریقین کے درمیان ایک تحریری معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ تاہم، بعد میں ہندوؤں کی طرف سے سمادھی کے ساتھ واقع مکانات کو خرید کر اسے زیارت کے ساتھ شامل کیا جا رہا تھا جس کے خلاف مقامی سطح پر احتجاج ہوا اور اس دوران چند مشتعل افراد نے سمادھی پر دھاوا بول دیا جس سے سمادھی کی عمارت مکمل طورپر تباہ کی گئی۔

حکومت نے بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر درجنوں افراد کو سمادھی پر حملے کے جرم میں گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کر دیے تھے۔

کرک کے معروف مذہبی عالم دین مولانا فیض اللہ قریشی اس کمیٹی کے رکن ہیں جس پر الزام ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مندر پر حملہ کرنے پر اکسایا تھا۔ وہ بعد میں گرفتار ہوئے اور تین مہینے تک جیل میں پابند سلاسل رہے۔ ان کے ساتھ کئی دیگر علما کو بھی گرفتار کر کے تین ماہ تک کوہاٹ جیل میں قید رکھا گیا۔ لیکن اب تمام قیدیوں کو ایک معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا ہے۔



مولانا فیض اللہ قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اصل معاملہ ہندؤوں کی جانب سے سمادھی کی توسیع کا تھا اور اس ضمن میں کئی ماہ سے ٹیری گاؤں میں علما اور مقامی انتظامیہ کے درمیان بات چیت چل رہی تھی۔ یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ عمارت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ یہاں کوئی ہندو نہیں رہتا لہٰذا اس کی کوئی ضرورت نہیں اور اس سلسلے میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا لیکن حکومت نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور سمادھی کی توسیع کے لئے مزید گھر خریدے گئے جس سے معاملات خراب ہوئے اور سمادھی پر حملہ ہوا۔’

’جب سمادھی کی توسیع جاری تھی تو ہم نے اس وقت بھی مقامی انتظامیہ کو خبردار کیا تھا کہ ہم بات چیت کے ذریعے سے معاملے کو حل کرانا چاہتے ہیں لہٰذا کام بند کیا جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے۔’

مولانا فیض اللہ قریشی کے مطابق سمادھی پر حملے کے جرم میں 120 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں ان سمیت کئی مقامی علما کرام بھی شامل تھے۔

انہوں خبردار کیا کہ اگر حکومت نے پہلے ہونے والے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی تو معاملات پھر سے خراب ہو سکتے ہیں۔

ٹیری ماضی میں الگ اور آزاد ریاست رہی ہے جہاں ہندؤوں کی ایک بڑی آبادی رہائش پذیر رہی ہے۔ یہ ریاست 1540 میں پشتو زبان کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک کے پر دادا ملک اکوڑ خان نے قائم کی تھی۔ تاہم، پاکستان جب آزاد ہوا تو ٹیری ریاست اس میں شامل ہوئی۔ یہاں ہندوؤں کا ایک الگ بازار ہوا کرتا تھا جس کے آثار آج بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔



آج کل یہاں کوئی ہندو خاندان نہیں رہتا بلکہ بیشتر ہندو خاندان کئی سال پہلے یہ علاقہ چھوڑ کر کوہاٹ اور دیگر شہروں میں آباد ہو گئے ہیں۔ شیری پرمنہاس جی مہاراج کی سمادھی کی زیارت کے لئے ملک بھر بالخصوص سندھ صوبے سے ہندو بڑی تعداد میں آتے رہے ہیں۔

کرک کے ایک تحقیق کار اور اسسٹنٹ پروفیسر وسیم خٹک کا کہنا ہے کہ ہندو گرو شیری پرمنہاس جی مہاراج کو ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ اسلام کا علم بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سمادھی پر پہلے بھی ایک حملہ ہوا تھا اور یہاں حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ اس طرح کے حملوں کا روکا جانا مشکل لگتا ہے۔



کوہاٹ میں پاکستان ہندو کونسل کے کوارڈنیٹر اور شیری پرمنہاس جی مہاراج مزار کے جونیئر کیئر ٹیکر روہت کمار ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ٹیری میں دفن ہندو مذہبی پیشوا کا پورا نام سوامی آدویتنند جی مہاراج جی ہے لیکن وہ شیری پرم جی مہاراج کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیری پرمنہاس جی مہاراج 5 اپریل 1846 کو انڈیا کے شہر بہار میں پیدا ہوئے۔

شیری پرمنہاس جی مہاراج نے روحانی تعلیم کے حصول کے لئے یہاں کا رخ کیا اور 1904 میں وہ پہلی مرتبہ ٹیری گاؤں آئے۔ جس جگہ پر شیری پرمنہاس جی مہاراج کی سمادھی بنی ہوئی ہے یہاں اس وقت ایک ہندو سنار بھگت امیر چند جی کا گھر ہوا کرتا تھا اور وہ ان کے مرید بھی تھے۔

روہت کمار کے مطابق 10 جولائی 1919 کو بابا فوت ہوئے اور یہاں کرشنا توارہ مندر میں اس کی سمادھی بنائی گئی۔

’جب انڈیا اور پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوا تو ٹیری گاؤں اور کرک سے زیادہ تر ہندو یہ علاقہ چھوڑ انڈیا ہجرت کر گئے اور چونکہ سمادھی اپنے ساتھ لے جانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا لہٰذا اس کو یہاں رہنے دیا گیا۔’

انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں بابا کے مرید یہاں زیارت کے لئے آنا شروع ہوئے اور اس وقت سے یہاں مقامی افراد کے ساتھ سمادھی کی توسیع کا مسئلہ چل رہا ہے۔

روہت کمار کے مطابق ’بابا کے زیادہ تر مریدوں کا تعلق سندھ سے ہے جب کہ مندر کو چلانے کے لئے ایک کمیٹی بھی قائم ہے جس کا میں بھی رکن ہوں جو مندر اور سمادھی کا تمام تر انتظام اور دیکھ بھال کرتی ہے۔’

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سمادھی پر حملے کے ایک ہفتے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے سمادھی کی دوبارہ سے ازسرنو تعمیر کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے شرپسندوں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ ان پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا تھا جن کے سامنے سمادھی پر حملہ ہوا۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔