ٹیری میں سمادھی کی مسماری کے بعد خوف کے سائے

ٹیری میں سمادھی کی مسماری کے بعد خوف کے سائے










سمادھی کو مسمار اور نذرآتش ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا مگر ٹیری کے عوام کے چہروں سے ندامت نہیں جاتی تو دوسری طرف مضافاتی علاقوں کے عوام سے خوف کے سائے نہیں جاتے وہ ایک عجیب خوف کا شکار ہیں کہ وہ پولیس کے شکنجے میں نہ آجائیں۔  سمادھی کیس کے مرکزی کردار مولوی شریف، قاری عبدالعظیم اور مولانا فیض اللہ گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ عبداللہ شاہ اور میرزاقیم نے بی بی اے کیا ہوا ہے  اب تک 110 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جس میں گاؤں ٹیری کے 25,ہنگو کوہاٹ کے چالیس جبکہ تین سو سے زائد لوگوں پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔ جن کو ویڈیوز سے شناخت کیا جارہا ہے یا گرفتار عناصر سے ریمانڈ میں ساتھیوں کا پوچھا جا رہا ہے ۔پولیس ذرائع کے مطابق گاؤں ٹیری کے 25افراد،نزدیکی گاؤں کے پچاس جبکہ ضلع ہنگوکوہاٹ کے چالیس افراد پولیس کی گرفت میں آچکے ہیں جس میں کیس کے مرکزی کرداروں کی گرفتاری بھی شامل ہے۔


علاقہ ٹیری جس کے عوام امن پسند ہیں مگر آپس میں اتفاق اور اتحاد کے فقدان کے باعث علاقے پر کنٹرول نہیں رہا اب دیگر علاقوں کے لوگ ٹیری میں رچ بس گئے ہیں ۔ جس سے نت نئےمسائل روز پیدا ہورہے ہیں ۔ جس میں حالیہ سمادھی کی مسماری کا واقعہ بھی ہے ۔

یعنی اس واقعے سے ٹیری نے بہت کچھ کھو دیا ہے ۔1997میں ایک قبر تھی جو توڑی گئی ۔2015میں سمادھی کی تعمیر ہوئی اور ہندو آنے جانے لگے ۔پھر 2020 میں  دوبارہ سمادھی کو نذر آتش کیا جاتا ہے تو سمادھی کے ساتھ ساتھ مندر کی تعمیر کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اور ساتھ میں سپریم کورٹ پرانی جگہوں کی تلاش، اُن کے زیر تصرف باغ کے بارے میں فیصلہ سنادیتی ہے کہ اس بارے میں بھی کام کریں اور 1947 کے کاغذات کو چیک کیا جائے۔ جس کے بعد اب یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ سمادھی کے ساتھ ساتھ اب علاقے کے عوام اپنے گھروں اور اراضی سے بھی ہاتھ نہ دھوبیٹھیں ۔یہ سب ایک ڈراؤنا خواب ہے


گاؤں ٹیری کے عوام ہندووں کے سمادھی کی مسماری پر ناراض ہیں کیونکہ اُن کا کہنا ہے کہ اسلام انہیں دوسرے مذاہب اور مذہبی عبادات کا درس دیتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ صدیوں سے ہندو یہاں پر مسلمانوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھی بنتے تھے۔ اب نجانے کیا ہوگیا کہ ان کے خیالات تبدیل ہوگئے ۔اُس وقت سے لیکر کوئی بھی ایسی مثال سامنے نہیں آئی جس کے مطابق کوئی بھی مسلمان ہندوہوئےہوں جبکہ یہ واقعات بہت زیادہ ہیں کہ مسلمانوں کے حسن سلوک سے وہ مسلمان ضرور ہوئے ہیں ۔علاقے کے لوگوں کا  تصور بھی نہیں تھا کہ اس طرح واقعہ  وقوع پذیر ہوگا ۔اب واقعے کے بعد علاقے کا تشخص پامال ہوچکا ہے ۔گاؤں ٹیری کے لوگوں کا تعارف پورے ملک میں  نوابوں کے علاقے کے نام سے کیا جاتا تھا اب پوری دنیا میں اس علاقے کو سمادھی کی مسماری والے لوگوں  کے حوالے سے کیا جاتا ہے ۔اس واقعے کے بعد علاقے میں کاروبار زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔کیونکہ مضافاتی علاقوں والے لوگوں کو ٹیری آنے سے روکا جاتا ہے جن میں سے اکثریت اس ڈر سے نہیں آتی کہ شاید موبائل ریکارڈنگ سے انہیں شناخت کیا جائے ۔جن میں ٹیری میں دکان کرنے والے بھی شامل ہیں ۔اب ٹیری میں دو ہزار میں سے  سو سے بھی کم دکانیں کھلی ہوتی ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے جہاں پہلے لاکھوں کا کاروبار ہوتا تھا اب وہاں دکاندار گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔اس حوالے سے دکانداروں کا کہنا تھا کہ کاروبار کچھ کرونا نے تباہ کیا تھا اب حالیہ واقعے نے اس میں مزید کیل ٹھونک دی ہے ۔

یعنی اس اوورال واقعے سے ٹیری نے بہت کچھ کھو دیا ہے ۔مگر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ حادثے کے بعد کچھ لوگوں میں شعور پیدا ہوگیا کہ اب علاقے کی فلاح وبہبود اور مذہبی ہم آہنگی کے لیئے کام کیا جائے ۔جس سے شاید یہ نہ مٹنے والا داغ مٹ جائے



















مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔