فرانس جدید انقلاب کے مرکز کے طور پر اپنی شناخت محفوظ رکھتا ہے۔ یہیں سے آزادی اور برابری کے نعرے آج سے لگ بھگ دو سو سال پہلے بلند ہوئے تھے۔ انقلاب فرانس قوموں کے ارتقاء کی لازوال داستان ہے لیکن پھر بھی آج تک فرانس میں آزادی اور برابری سوالیہ نشان ہیں۔
اس کی تازہ ترین مثال 17 سالہ مراکشی نژاد ناہیل ہیں جسے پولیس نے نسلی تعصب کی بھینٹ چڑھا کر قتل کر دیا ہے۔
فرانس کا انقلاب سے بے ربط تعلق وابستہ تو ہے مثلاً کارل مارکس فرانس کو سیاسی جلاوطنوں کی بہترین آرام گاہ سمجھتے ہیں۔ شاید یہ قول فرانس کے مجموعی سیاسی شعور کی عکاسی کرتا ہے لیکن فرانس کا نوآبادیاتی کردار بھی ناقابلِ فراموش ہے۔
نوآبادیات وحشی کارنامہ ہے جسے طاقت ہمیشہ تہذیب سے جوڑتی ہے البتہ طاقت کی تہذیب و باطن کی تہذیب تاریخ کی تہذیب سے بڑی مماثل ہے۔
مراکش فرانس کی کالونی رہا ہے۔ وہاں فرانس کی زبان اور ثقافت مجموعی طور پر عیاں ہے لیکن فرانسیسی طرزِ زندگی پر پلنے والا ناہیل فرانسیسی پولیس کو برداشت نہیں۔
بھلا ہو فرانس کا کہ وہاں ریاستی مظالم کے پیچھے میڈیا کو نظر بند نہیں کیا جاتا۔ 45 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہوئے، سرکار نے کیا کیا اقدامات کیے، پرتشدد مظاہرین نے سرکاری املاک کو کتنا نقصان پہنچایا؛ سبھی معلومات نشر کی گئیں اور قومی سلامتی کو ان معلومات کی نشرواشاعت سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔
فرانس میں مراکشی نژاد کا کردار میرے نزدیک اس لیے ثانوی ہے کیونکہ مراکش اور فرانس دو الگ ریاستیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے باسی دوسرے صوبوں میں اس قدر نسلی تعصبات کا شکار ہیں کہ ان کو ثقافتی لباس پر نشانہ بنایا جاتا یے۔ یہ صرف مقامیوں تک محدود نہیں بلکہ پنجاب پولیس نے لاہور میں زیر تعلیم بلوچ طلبہ کو اپنا مخصوص لباس پہننے پر ٹارچر کیا ہے۔ کیونکہ بلوچستان فرانس نہیں،اسی لیے میڈیا میں یہ روداد دستیاب نہیں۔
بلوچستان میں اگر کہیں ماورائے قانون قتل اور جبری گمشدگی پر پرامن احتجاج بھی کیا جائے تو ریاستی مشینری ایکشن میں آ جاتی ہے، پرتشدد مظاہروں سے کے بارے میں تو سوچا بھی نہین جا سکتا۔
فرض کریں ناہیل اگر بلوچ ہوتا یا فرانس اگر بلوچستان ہوتا تو اب تک کیا کچھ ہو چکا ہوتا؟
گرفتار ہونے کے بجائے ہزاروں لوگ جبری طور پر لاپتہ ہو چکے ہوتے، پولیس کے بجائے فوجی ایکشن ہوتا، ہیلی کاپٹر اڑان بھر چکے ہوتے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کیمپ لگ چکے ہوتے وغیرہ وغیرہ۔
فرانسیسی لوگوں کو چاہئیے کہ قریبی گرجا گھر، مسجد، مَندر، گوردوارے جا کر یا پھر کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تسبیح اٹھائیں اور شکر ادا کرتے رہیں کہ وہ فرانس میں پرتشدد مظاہرے بھی کر رہے ہیں اور انہیں رات کی تاریکی میں گھر کی چار دیواری سے باہر کسی انجان گاڑی کا ڈر بھی نہیں ہے۔
وہ اس فکر میں بھی مبتلا نہیں ہیں کہ کل میرا وجود ایک پوسٹر بن جائے گا، ہزاروں لوگ بازیابی کا ورد کریں گے، کسی کے آنسو ٹپکیں گے اور کوئی میری جبری گمشدگی پر پروپیگنڈا کرے گا، مجھے گالیاں دے گا یا میڈیا بلیک آؤٹ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ناہیل مراکش کا ہے، فرانسیسی نژاد ہے، نسلی تعصب کا شکار ہے، جو ہے وہ ہے۔ وہ بلوچ نہیں ہے، بلوچستان کا ڈومیسائل نہیں رکھتا، وہ اس بات پر شکر منائے۔
گرفتار مظاہرین بھی یہ شکر مناتے رہیں کہ کل ان کی بازیابی کے لیے، انہیں عدالت میں پیش کرنے اور منظرِ عام پر لانے کے لیے کسی کو اپیل نہیں کرنی پڑے گی۔
یوسف بلوچ کالم نگار ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔