جب پاکستان وجود میں آیا تو مختلف معاشرتی گروہ بجائے ہم آہنگ ہونے کے ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے اور اس بدگمانی کا اثر معاشرے میں ہر جگہ نظر آنے لگا۔ پاکستان کی کرکٹ بھی اس بدگمانی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تعصب کے اثر سے نہ بچ سکی۔
پاکستانی معاشرے اور قومی کرکٹ میں پیدا ہونے والے اس تعصب کو ہم تین مرحلوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
سماج اور کرکٹ ٹیم میں پیدا ہونے والے تعصبات
پاکستان بننے کے بعد کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں میں ایک دوسرے کے مابین طبقاتی بنیادوں پہ تعصب پیدا ہونے لگا۔ پاکستانی ٹیم جنرل ایوب خان کے زوال کے دنوں تک اسی طبقاتی تفریق کی بنیاد پر مختلف تنازعات میں گھری رہی۔
70 کی دہائی میں اس طبقاتی تفریق کی جگہ نسلی اور علاقائی تعصب نے لے لی۔ اس دور میں پاکستانی کرکٹ میں نسلی اور علاقائی بنیادوں پر دو بڑے گروہ بن گئے جن کے آپس کے اختلافات اور تعصبات نے مجموعی طور پر پاکستانی کرکٹ پر بہت برے اثرات مرتب کیے۔
تیسرا دور جنرل ضیاالحق اور ان کے بعد سے لے کر اب تک کا زمانہ ہے جس میں ملک میں مذہب اور فرقے کی بنیاد پہ ایک خاص قسم کی فضا بنائی گئی جس نے دھیرے دھیرے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ دور مذہبی تعصب کا دور تھا جس نے پاکستانی معاشرے کو بھی متاثر کیا اور قومی کرکٹ کو۔
پاکستانی معاشرے اور پاکستانی کرکٹ پر اس تعصب کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تعصب کے یہ تینوں مرحلے مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہیں بلکہ ان تینوں مرحلوں میں پیدا ہونے والے تعصبات کی جڑیں ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔
طبقاتی تفریق
1952 میں پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی اجازت ملی تو ملک کے کرکٹ بورڈ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے اور خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والے عبدالحفیظ کاردار کو قومی ٹیسٹ ٹیم کا پہلا کپتان بنایا۔ عبدالحفیظ کاردار بہت بااثر کپتان تھے جبکہ ان کی ٹیم میں کئی کھلاڑی ایک تو نئے تھے اور پھر بعض کھلاڑی معاشی لحاظ سے اتنے کمزور تھے کہ کھیلنے کا سامان بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ 1952 سے 1958 تک کے اپنے دور میں اگرچہ عبدالحفیظ کاردار نے قومی ٹیم کی بہترین قیادت کی اور اسی کے نتیجے میں پاکستان چند میچ بھی جیتنے میں کامیاب ہوا مگر اس دوران طبقاتی تفریق کی وجہ سے کھلاڑیوں کے مابین مسائل بھی پیدا ہونے شروع ہو گئے۔
حنیف محمد اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ عبدالحفیظ کاردار عمدہ کپتان تھے مگر شاہانہ طرز زندگی اور نوابی عادتوں کے مالک تھے۔ وہ ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں کہ کس طرح عبدالحفیظ کاردار نے ان کے پانچویں بھائی رئیس احمد کا کیریئر تباہ کیا۔ کاردار نے رئیس احمد کو صرف اس لئے ٹیم میں جگہ نہ دی کیونکہ رئیس احمد کو جگہ دینے کے لئے کاردار کو ٹیم سے مقصود احمد کو نکالنا پڑتا۔ مقصود احمد کو وہ اس لئے ٹیم میں رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ان کا تعلق ایک اپر مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔ وہ کاردار کے ساتھ مل کے پارٹی کرتے تھے اور دونوں اکٹھے شراب پیتے تھے۔
حنیف محمد لکھتے ہیں کہ چونکہ ہمارا تعلق متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا اور اگرچہ ہم بھی شراب پی لیتے تھے مگر کاردار ہمیں اپنے برابر کا نہیں سمجھتے تھے اور یوں انہوں نے بدستور مقصود احمد کو ٹیم میں جگہ دیے رکھی۔ اس طرح ہم پانچ بھائیوں میں سے اکیلے رئیس احمد کو قومی ٹیم میں کھیلنے کا موقع نہ مل سکا۔
1958 میں عبدالحفیظ کاردار کی ریٹائرمنٹ کے بعد پہلے فضل محمود اور پھر امتیاز احمد ٹیم کے کپتان بنے۔ 1962 میں اگرچہ حنیف محمد ٹیم میں سب سے زیادہ تجربے کار بلے باز تھے مگر کرکٹ بورڈ نے حفیظ کاردار جیسی سماجی حیثیت والے کھلاڑی جاوید برکی کو ٹیم کی سربراہی سونپ دی۔ حنیف محمد کو نظرانداز کر کے 1962 میں انگلینڈ کے دورے کے لئے 24 سالہ نوجوان کھلاڑی جاوید برکی کو ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا۔ جاوید برکی بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ ان کے والد کا تعلق پاک فوج سے تھے اور وہ لاہور کے ایک اپر مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ چونکہ ایوب خان فوج کے کمانڈر انچیف تھے اس لئے انہوں نے کرکٹ ٹیم کا مینجر بھی ایک فوجی افسر کو لگایا جنہیں کرکٹ اور فٹ بال کے فرق کا بھی علم نہیں تھا۔
جاوید برکی اگرچہ بلے باز اچھے تھے مگر بطور کپتان اپنے سے کم تر طبقاتی حیثیت والے کھلاڑیوں سے فاصلہ رکھتے تھے۔ انگلینڈ کے دورے میں پاکستان ایک کے بعد ایک ٹیسٹ میچ ہارنے لگا اور اس دوران جاوید برکی نے اپنے گرد چند منظور نظر کھلاڑیوں کو جمع کر لیا اور انہی کے توسط سے باقی کھلاڑیوں تک ہدایات پہنچاتے رہے۔ فضل محمود بیان کرتے ہیں کہ اس دورے کے دوران جاوید برکی ان سے براہ راست بات کرنے کے بجائے مینجر کے ذریعے اپنے پیغام ان تک پہنچاتے تھے۔
جنرل ایوب خان کا کردار
جنرل ایوب خان نے ملک میں صنعتی ترقی کے فروغ کے لئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کی اور ملک میں ایک نئے کاروباری اور سرمایہ کار طبقے نے جنم لیا۔ جنرل ایوب کی ان پالیسیوں کا فائدہ ہر کسی کو نہ مل سکا بلکہ بیش تر طبقات میں احساس محرومی بڑھتا چلا گیا۔ ملک میں یہ طبقاتی تفریق اپنی معراج کو جنرل ایوب خان کے دور اقتدار کے آخری برسوں میں پہنچی اور جگہ جگہ ان کے خلاف احتجاج شروع ہو گئے۔ احتجاج کی فضا بنی تو یہ احتجاج قومی کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کے خلاف بھی ہونے لگے اور 1968 میں تماشائیوں نے کراچی کے گراؤنڈ میں اتر کر جنرل ایوب خان کے خلاف نعرے بازی کی۔
اسی طبقاتی تفریق نے مختلف قومیتوں سے تعلق رکھنے والے عوام کو مجبور کیا کہ وہ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں۔ بنگالی عوام نے اپنی حق تلفی کے خلاف سب سے زیادہ زور شور سے احتجاج شروع کیا اور انہوں نے فوج، بیوروکریسی، معیشت اور کھیلوں پر پنجابی اجارہ داری پر سخت اعتراض اٹھائے۔ مارچ 1971 میں مشرقی بنگال میں بنگالی قوم پرستوں اور باغیوں کے خلاف پاکستانی فوج نے آپریشن شروع کر دیا۔ جون جولائی کے مہینوں میں پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے پر تھی اور لندن کے ایک خیراتی ادارے نے بنگال میں جاری لڑائی سے متاثر ہونے والے بنگالیوں کی مالی مدد کے لئے ایک کرکٹ بیٹ کی نیلامی کے لئے تقریب کا اہتمام کیا۔ آفتاب گل کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم کے بعض کھلاڑیوں نے اس بلے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ آفتاب گل کا تعلق پنجاب سے تھا۔ وہ ماؤ نواز تھے یعنی پاکستان میں موجود روس کے حمایتی مارکسسٹوں کے بجائے چین کے حمایتی مارکسسٹوں سے ان کا تعلق تھا۔ ماؤ نواز بنگال کی لڑائی میں بنگالی قوم پرستوں کے مخالف تھے۔
نسلی اور علاقائی تفریق
1970 کی دہائی میں پاکستانی معاشرہ طبقاتی تقسیم کی بنیاد پہ پیدا ہونے والے تعصب کے ساتھ ساتھ ایک اور قسم کے تعصب میں بھی گھرتا چلا گیا۔ بنگالیوں کے الگ ہو جانے کے بعد باقی رہ جانے والے صوبوں میں بھی پنجابی اشرافیہ کے خلاف بدگمانی بڑھنا شروع ہو گئی۔ قومی کرکٹ میں بھی یہ تقسیم نظر آئی اور یہ دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا تعلق زیادہ تر شہری علاقوں سے ہوتا تھا۔ چھوٹے علاقوں اور دیہات میں ابھی کرکٹ اتنی مقبول نہیں ہوئی تھی۔ اس دور میں قومی کرکٹ جن دو گروہوں میں بٹ گئی ان میں سے ایک گروہ پنجابی کھلاڑیوں کا تھا جن کا تعلق لاہور سے تھا جبکہ دوسرا گروہ کراچی سے تعلق رکھنے والے مہاجر کھلاڑیوں پر مبنی تھا۔ آنے والے دنوں میں ان دو گروہوں کے مابین جہاں زبردست مسابقت دیکھنے میں آئی، وہیں ایک دوسرے کے خلاف تعصب کے بھی درجنوں واقعات دیکھنے کو ملے۔
ذوالفقار علی بھٹو جب ملک کے صدر بنے اور انہوں نے سندھی زبان کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کا اعلان کیا تو کراچی کے مہاجرین میں عدم تحفظ کی لہر دوڑ گئی۔ وہ پنجابی اشرافیہ سے تو پہلے سے بدگمان تھے، اب ایک سندھی رہنما کی موجودگی میں بھی انہیں محسوس ہونے لگا کہ بنگالیوں کی طرح اب انہیں بھی نظر انداز کیا جائے گا۔ یہ عدم تحفظ صرف کراچی کی مہاجر کمیونٹی نے ہی محسوس نہیں کیا بلکہ سندھی لوگوں کو بھی احساس ہوا کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ 1976 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی اور سیریز کا دوسرا میچ سندھ کے شہر حیدر آباد میں کھیلا جانا تھا۔ سندھی میڈیا نے تب اس بات کی نشاندہی کی کہ اگرچہ ملک کا وزیر اعظم سندھی ہے اور یہ میچ بھی سندھ میں ہو رہا ہے مگر قومی ٹیم میں کھیلنے والا ایک بھی کھلاڑی سندھی نہیں ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں کرکٹ بورڈ نے میچ سے پہلے تمام کھلاڑیوں میں سندھی لباس، اجرکیں اور ٹوپیاں تقسیم کیں۔ جاوید میانداد نے سندھی ٹوپی پہن کر میڈیا کے سامنے یہ بیان دیا کہ کراچی سندھ میں ہے اس لئے وہ اپنے آپ کو سندھی سمجھتے ہیں۔
لاہور اور کراچی کے کھلاڑیوں کی مخاصمت کا سب سے بڑا واقعہ تب سامنے آیا جب قومی ٹیم کے کپتان آصف اقبال کے ریٹائر ہونے کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ نوجوان کھلاڑی جاوید میانداد کو ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔ ٹیم میں اس وقت کئی کھلاڑی جاوید میانداد سے زیادہ تجربہ کار تھے اور انہیں یہ فیصلہ قطعاً پسند نہ آیا۔ جاوید میانداد نے بطور کپتان اگرچہ آسٹریلیا کے خلاف اپنی پہلی سیریز جیت لی مگر اگلی دو سیریز میں ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1982 میں سری لنکا کے خلاف سیریز کے لئے انہیں قومی ٹیم کا کپتان برقرار رکھا گیا۔ سیریز سے پہلے جاوید میانداد کو یہ شکایت کرتے سنا گیا کہ سینیئر کھلاڑی ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔ اس شکایت کے ردعمل میں لاہور سے تعلق رکھنے والے سینیئر کھلاڑی ماجد خان نے قومی ٹیم کے 9 کھلاڑیوں کو اپنے گھر پر دعوت دی اور انہیں جاوید میانداد کی کپتانی میں نہ کھیلنے پر راضی کر لیا۔ ان باغی کھلاڑیوں میں ظہیر عباس، مدثر نذر، عمران خان، سکندر بخت، محسن خان، سرفراز نواز، وسیم باری، اقبال قاسم اور وسیم راجہ شامل تھے۔
اس بغاوت کے خلاف کرکٹ بورڈ نے جاوید میانداد کا ساتھ دیا اور سری لنکا کے خلاف وہ ایک بالکل نئی ٹیم لے کر میدان میں اترے۔ کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں جب پہلا ٹیسٹ میچ جاری تھا تو نوجوان تماشائیوں نے باغی کھلاڑیوں کو کراچی مخالف اور پنجابی ٹھگ کہتے ہوئے ان کے خلاف زبردست نعرے بازی کی اور سٹیڈیم میں ماجد خان، ظہیر عباس اور عمران خان کے پتلے بھی جلائے گئے۔ کراچی کے میڈیا نے بھی ماجد خان پر سخت الفاظ میں تنقید کی کہ وہ لاہور لابی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور صرف اس لئے جاوید میانداد کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ کراچی والے ہیں اور غیر پنجابی ہیں۔ اگرچہ باغی کھلاڑیوں میں سے پانچ کا تعلق کراچی سے تھا مگر پھر بھی کراچی پریس نے اس ساری بغاوت کو پنجابی شاونزم ہی قرار دیا۔ بعد میں جاوید میانداد نے قومی ٹیم کو پھر سے جوڑنے کی غرض سے خود ہی کپتانی چھوڑنے کا اعلان کر دیا اور کہا کہ وہ ماجد خان کے علاوہ کسی بھی کپتان کے ساتھ کھیلنے کو تیار ہیں۔ چنانچہ ان کے بعد عمران خان کو قومی ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا۔
مذہبی تفریق
تیسری قسم کی تفریق نے معاشرے میں اپنا نفوذ تب شروع کیا جب جنرل ضیاء الحق کی مذہبی پالیسیوں کے ثمرات برآمد ہونا شروع ہوئے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم شروع ہی سے اپنی جیت کا جشن شیمپین کے ساتھ مناتی رہی تھی مگر اب یہ ہوا کہ پاکستان میں کرکٹ ٹیم کے ڈریسنگ روم میں شیمپین کے ساتھ جشن منانے کا سلسلہ بند ہو گیا۔ شیمپین کے ساتھ جشن محض بیرون ملک دوروں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ ملکی فضا ایسی بن چکی تھی کہ مذہب کو بطور آلہ دہشت استعمال کیا جانے لگا۔ معاشرے میں مجموعی مذہبی میلان کا یہ رجحان کرکٹ میں پہلی مرتبہ تب نظر آیا جب کراچی سے تعلق رکھنے والے کرکٹر قاسم عمر نے عمران خان کی کپتانی میں کھیلنے والی ٹیم پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے کئی الزام لگائے۔ اسے ہم قومی کرکٹ میں مذہبی کارڈ کے استعمال کی پہلی مثال کے طور پر دیکھتے ہیں۔
دراصل 1986 میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر تھی جب ایک میچ میں کم سکور کرنے پر کپتان عمران خان نے قاسم عمر کو سب کے سامنے ڈانٹ دیا اور ان کی بے عزتی کی۔ وطن واپسی پر قاسم عمر نے عمران خان کی ڈانٹ کا غصہ اس طرح نکالا کہ انہوں نے اپنے انٹرویوز میں میڈیا کو بتانا شروع کر دیا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کے کھلاڑی ہوٹل میں لڑکیاں لے کر آتے ہیں۔ وہ شراب پیتے ہیں اور ہیروئن کا نشہ بھی کرتے ہیں۔
اگرچہ قاسم عمر کے ان الزامات کو کرکٹ بورڈ نے سنجیدگی سے نہ لیا اور ان پر تاحیات پابندی لگا دی مگر یہ پہلا موقع تھا جب کرکٹ ٹیم میں کسی کھلاڑی نے اخلاقی بنیادوں پر ساتھی کھلاڑیوں کو سرعام تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد جوں جوں ضیاء دور کی پالیسیوں کا پھل پکتا چلا گیا اس رجحان میں بھی تیزی آتی گئی۔ آگے چل کر ملک کی تبلیغی جماعت نے باقی معاشرے کی طرح کرکٹ میں بھی نفوذ کرنا شروع کر دیا۔ کرکٹ میں تبلیغی جماعت کا اثر سابق پاکستانی کرکٹ کپتان سعید احمد لے کر آئے جنہوں نے 90 کی دہائی میں باقاعدہ تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سعید احمد کے بعد سعید انور اولین کھلاڑیوں میں شامل تھے جنہوں نے تبلیغی جماعت کا اثر قبول کیا اور ڈاڑھی رکھ لی۔
ٹیم کے کھلاڑیوں اور انتظامیہ نے پہلی بار سعید انور کے مزاج میں تبدیلیاں اس وقت دیکھیں جب جنوبی افریقہ میں 2003 کا ورلڈ کپ چل رہا تھا۔ اس وقت کے قومی ٹیم کے مینجر شہریار خان نے 2013 میں اپنی کتاب ‘The Cricket Cauldron’ میں لکھا کہ جب ورلڈ کپ شروع ہوا تو سعید انور کے منہ سے ہم نے اس طرح کی باتیں سنیں کہ یہ ورلڈ کپ ہم ہی جیتیں گے کیونکہ فرشتے ہماری مدد کو آئیں گے۔ بعد میں جب قومی ٹیم پہلے ہی مرحلے سے باہر ہوگئی تو میں نے سعید انور سے ازراہ تفنن پوچھا کہ بھئی کہاں رہ گئے وہ فرشتے جنہوں نے ٹیم کو جتوانا تھا تو سعید انور نے اس پر ترنت یہ جواب دیا: فرشتے اس لئے ہماری مدد کو نہیں آئے کیونکہ ہم اچھے مسلمان نہیں ہیں۔
تبلیغی جماعت کے اثر میں آنے سے قبل سعید انور کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ بہت کم گو انسان تھے۔ مگر جب انہوں نے ڈاڑھی لمبی کرلی تو پھر وہ جا بجا ساتھی کھلاڑیوں سے مذہب، عقیدے اور اخلاقیات سے متعلق مختلف سوال کرتے نظر آتے۔ وہ اپنے سوالوں سے اکثر ساتھی کھلاڑیوں کو بے چین کر دیتے۔
سعید انور کے بعد ہمیں یہ اثر ثقلین مشتاق، مشتاق احمد، انضمام الحق، یوسف یوحنا سے محمد یوسف بننے والے مایہ ناز بیٹسمین اور پھر مصباح الحق میں نظر آیا۔ انضمام الحق جب کپتان تھے تو وہ ایسے کھلاڑیوں سے زیادہ خوش ہوتے تھے جو ان کے نظریات سے متفق ہوتے تھے۔ شعیب اختر کے انضمام الحق سے اختلافات کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ انضمام الحق شعیب اختر کو پارٹی بوائے اور غیر ذمہ دار انسان سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس یونس خان بھی نماز روزے کے پابند کھلاڑی تھے مگر انضمام الحق کی ان کے ساتھ بھی ان بن تھی کیونکہ یونس خان دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات کو بھی عام انسانوں کی طرح ادا کرنے کے حق میں تھے جبکہ انضمام الحق کا کیمپ خواتین کے ساتھ ملنے جلنے اور دوسری ٹیموں کے کھلاڑیوں سے تعلقات رکھنے کو پسند نہیں کرتا تھا۔ یوں تعصب کی یہ لہر جو جنرل ضیاء کے زمانے میں پیدا ہوئی تھی آج تک معاشرے میں جاری و ساری ہے اور اس کے اثرات کرکٹ میں بھی زندہ جاوید ہیں۔
مصباح الحق جب چیف سلیکٹر بنے تو ان کے زمانے میں کراچی بمقابلہ لاہور والی نسلی تفریق کی باسی کڑھی میں پھر سے ایک ابال آیا۔ ناقص کارکردگی پر کراچی سے تعلق رکھنے والے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کو پہلے کپتانی سے ہٹایا گیا اور پھر ٹیم سے نکال دیا گیا تو کراچی کے میڈیا اور مہاجر قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم نے دو دہائیوں کے بعد ایک بار پھر اسے کراچی کے کھلاڑیوں کے بارے میں قومی ٹیم کے تعصب سے تعبیر کیا۔
ندیم فاروق پراچہ کا یہ مضمون اس سے پہلے 'نیا دور' ہی پہ انگریزی زبان میں شائع ہو چکا ہے۔ 'نیا دور' سے وابستہ اردو قارئین کے لئے اب اسے ترجمہ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔
ٹیگز: آصف اقبال, آفتاب گل, انضمام الحق, پاکستان کرکٹ ٹیم, پاکستانی کرکٹ, پاکستانی معاشرہ, جاوید برکی, جاوید میانداد, حنیف محمد, سرفراز نواز, سعید انور, سکندر بخت, طبقاتی تقسیم, ظہیر عباس, عبدالحفیظ کاردار, علاقائی تعصب, عمران خان, کراچی گروپ کے کھلاڑی, لاہور گروپ کے کھلاڑی, محسن خان, محمد یوسف, مدثر نذر, مذہبی تفریق, مشتاق محمد, یوسف یوحنا