کسی سیانے نے شاید درست کہا ہے کہ عقل ہمیشہ دیر سے اور بہت کچھ گنوانے کے بعد ہی آتی ہے۔ ہمارے محترم وزیر اعظم کو بھی کورونا وائرس کی موذیت کا ادراک 103 دن گزر جانے کے بعد اس وقت ہوا جب 103,671 افراد اس مرض میں مبتلا اور 2,067 جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔ چونکہ ابھی بھی پوری عقل نصیب نہیں ہوئی، تو خان صاحب کوئی عملی اقدام کرنے کی بجائے فقط عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ آخر عوام سنجیدگی کیوں دکھاتے یا دکھائیں؟ جب ان کے وزیراعظم ٹی وی پر آ کر بلند و بانگ دعووں اور غلط حقائق کی مدد سے کورونا وائرس کو غیر سنجیدہ مسئلہ قرار دینے میں مصروف نظر آتے تھے۔
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پہلے خان صاحب نے قوم کو یہ کہہ کر ’ڈھیٹ‘ بنایا کہ یہ وائرس فقط ایک عام فلو ہے جو چند دنوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے، پھر ’کورونا سے گبھرانا نہیں‘، ’کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘ جیسے گمراہ کن نعروں سے مزید ’ڈھٹائی‘ پر آمادہ کیا۔ گرمی سے وائرس کے پھیلاﺅ کم ہو جانے اور ملک میں کورونا کی کمزور شکل جیسے خان صاحب کے غیر حقیقی دعووں نے بھی عوام کو بے احتیاطی برتنے پر راغب کیا۔
وزیراعظم صاحب کی جانب سے ٹیسٹ کروانے میں جلد بازی سے ممانعت بھی کی جاتی رہی اور وائرس کے صرف ’بوڑھوں‘ کے لئے خطرناک ہونے کی تاویل بھی گھڑی۔ خان صاحب نے تو اجتماعات کی مزید حوصلہ افرائی کے لئے کہا کہ مساجد سے کورونا کا پھیلاؤ نہیں ہوا اور جب خمیازہ بھگتنے کا وقت قریب آنے لگا تو ساری تان عوام کی غیر سنجیدگی پر جا کر ٹوٹی۔ آج جاننے کے لئے کہ عوام کورونا وائرس کے بارے میں کتنا شعور رکھتی ہے گیلپ سروے کا مطالعہ کریں جس کے مطابق 63 فیصد پاکستانی شہری یقین رکھتے ہیں کہ کورونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بتایا جا رہا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا جیسی موذی وبا کے سامنے ملک کی برسہا برس کی غلط ترجیحات کی وجہ سے کسی حد تک نقصانات ناگزیر تھے لیکن ایک بہتر حکمت عملی اور وسائل کے درست استعمال سے اس نقصان کو کم سے کم کرنا ہرگز ناممکن نہیں تھا۔ دنیا کا تئیسواں بڑا دفاعی اخراجات کرنے والا ملک تو اول دن سے ہی وسائل نہ ہونے کا رونا شروع ہو گیا جب کہ حکمت عملی بھی حکمت اور عمل دونوں سے عاری نظر آئی۔
حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ائرپورٹس اور بارڈر انٹری پر حفاظتی اقدامات اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے واحد طریقے لاک ڈاؤن کا بھی خان صاحب نے خوب تمسخر اڑایا۔ کبھی فرمایا لاک ڈاؤن نہیں ہوگا، جب کسی نے کروایا تو اس کے فوائد بھی گنوائے۔ لاک ڈاؤن اٹھایا تو اس کی گھنٹی اشرافیہ کے گلے میں باندھ کر ان کو مورد الزام ٹھہرایا اور آخر میں اس نام نہاد لاک ڈاؤن کے آگے سمارٹ کا لفظ لگا کر اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ بھی ہو گئے۔ غضب خدا کا، خان صاحب دنیا کو بھی آمادہ کرنے پر تلے ہیں کہ وہ ہماری اس ’سمارٹ‘ پالیسی کی تقلید کریں۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1269977856580497409
اس سب کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلنا چاہیے تھا کہ آج پاکستان کورونا سے ناکام طور پر نمٹںے پر ایشیا کا چوتھا خطرناک ترین ملک بن چکا ہے۔ معتبر ڈاکٹر صاحبان اور ماہرین نے جن خطرات سے پیشگی آگاہ کر رہے تھے، وہ تیزی سے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ ایمان اور غیر تربیت یافتہ نوجوان جو اس جنگ میں خان صاحب کے سب سے مؤثر ہتھیار تھے وہ بھی میدان جنگ سے غائب ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں کو خان صاحب نے جو الٹی میٹم دیا اس کا اثر یہ ہوا کہ آٹا، چینی، ادویات اور پٹرول کی مصنوعی قلت کر دی گئی۔ مخیر حضرات سے جمع کیے گئے عطیات اور حکومتی ریلف فںڈ کی شفافیت کے بارے میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ سوال اٹھا رہی ہے۔ حکومت کی نئی حکمت عملی اب یہ ہے کہ قوم کو ٹک ٹاک سٹارز کے ذریعے سدھارا جائے۔
ریاست کے دوسرے اور تیسرے ستون کی طرف دیکھیں تو ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ سے سے تو توقع ہی بیکار تھی۔ لیکن شکر ہے ہماری عدلیہ کو ہی احساس ہو گیا ہے کہ ’کرونا وائرس لوگوں کو مار رہا ہے‘۔ امید ہے اگلی عید پر پرانے کپڑوں سے کام چلانا بھی جرم نہیں تصور ہو گا۔
یہاں پر یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ بطور معاشرہ ہم اس وقت تک کورونا جیسے وبائی مرض کو شکست نہیں دے سکتے جب تک ہر فرد اپنی انفرادی ذمہ داری پر سنجیدگی سے عمل پیرا نہ ہو۔ لیکن بطور منتظم یہ ذمہ داری خان صاحب کی ہی تھی کہ وہ ایسی منصوبہ بندی تشکیل دیتے جس میں احتیاطی تدابیر اور معاشی سرگرمیاں دونوں پر ہی عمل درآمد کیا جا سکتا۔ پر خان صاحب کے اطوار پر تو منیر نیازی کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘۔