Get Alerts

شوگر کارٹل اور عمران کی جنگ میں کون جیتے گا؟

شوگر کارٹل اور عمران کی جنگ میں کون جیتے گا؟

عمران خان وزیر اعظم پاکستان نے پہلے ہی دن اس بات کا کھل کر اظہار کر دیا تھا کہ وہ حزب مخالف کو خواہ کتنی ہی سنگین صورت حال ہو اور ملک کے لئے کتنا ہی بڑاخطرہ کیوں نہ ہو، وہ ان سے مل کر اس کو حل کرنے یاان کی مشاورت کبھی بھی  قبول نہیں  کرے گا کیوں کہ اس کے نزدیک وہ ہمیشہ کے لئے 'برے لوگ' ہیں-


میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے عمران کوالزام نہیں دینا چاہئے کیوں کہ  اسے لانے والوں کو پہلے ہی پتہ ہونا چاہئے تھا کہ ان کے 'لاڈ لے' کی کیا نفسیات ہے-


عمران کوئی سیا ست کے میدان میں نووارد نہیں ہے- اس نے  حکومت میں آنے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو اقتدار حاصل کرنے کے لئے لوگ کرتے آئے ہیں- اس نے سب سے د لچسپ اور شاطرانہ چال تو اپنے سب سے بڑے حامی، جس کے وسائل اور مدد کے بغیرعمران حکومت  میں نہیں آسکتا تھا۔  جہا نگیر ترین کے خلاف چلی- اسے سپریم کورٹ سے ہمیشہ کے لئے نا اہل کروا دیا-


میں اس تفصیل کو دھرانا نہیں چاہتا کہ جہانگیر ترین نے عمران کے لئے کیا کچھ کیا اور اسے کس طریقہ سے اقتدار دلوایا-[ ذولفقار علی بھٹو نے بھی اپنے محسنوں جنرل گل اور ایرمارشل ذولفقار کو چلتا کیا تھا]


گو اب بھی کچھ لوگ عمران کی کابینہ میں وزات عظمیٰ کے طلب گار ہیں-


تاریخ کے طلبا کو جنرل ضیا کے پانچ پیارے یا د ہوں گے مگر سب سے کامیاب اور خوش قسمت نواز شریف نکلے-


چینی کے سکینڈل کے بارے میں بہت باتیں ہو رہی  ہیں- پہلے تو پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا یہ خیا ل تھا کہ کوئی تفتیش نہیں ہو گی اگر  ہو گی بھی تو یہ عوام کے سامنے پیش نہیں کی جائے گی مگر یہ دونوں مفروضے غلط ثابت ہوئے۔ کمیشن بنا اور اس کی رپوٹ بھی شائع کر دی گئی ہے-


لیکن پاکستانی سیاست کے جاننے والے جانتے ہیں کہ اس رپوٹ میں کیا لکھا گیا ہے اور اس کے کیا معنی ہیں-


پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی سیا ست اب پوری طرح سرمایہ داروں کے شکنجے میں آچکی ہے- یہ حیرانگی اور اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے- پاکستان میں بھی دوسرے ممالک کی طرح سرمایہ دار اب فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو اقتدار میں آنا چاہئے اور کس کو باہر کرنا چاہئے-


آج ساری دنیا کو یہی سرمایہ دار جنہیں آپ کثیر القومی کمپنیاں کہتے ہیں، چلا رہی ہیں -بایئں بازو کے سینیر دانشور طارق علی  نے مجھے اس کی بہت عمدہ مثال دی۔ اس نے کہا کہ عراق کو دیکھو، پہلے امریکہ کے بمبار طیاروں نے عراق کو تباہ کیا اور اب عراق کی تعمیر نو بھی امریکن کپمنیاں ہی کر رہی ہیں- یعنی مٹانا  اور بنانا ہر طرح سے فائدہ امریکی سرمایہ دار کا ہوگا-


نواز شریف گو خود ایک سرمایہ دار خاندان سے تھا مگر اس کی اپنی برادرای کے لوگ[سرمایہ دار] اس سے بہت حاسد تھے وہ اسی لئے اس کے خاندانی پس منظر کا مذاق اڑاتے تھے- ان کا خیال تھا کہ اگرایک چھوٹا سرمایہ دار وزیر اعظم بن سکتا ہے تو ہم یا ہمارے بچے کیوں نہیں-


لہذا ہم  نے دیکھا کہ نواز شریف کے مخالفین میں پاکستانی سرمایہ دار[ شوگر مافیا] آگے آگے تھے اوراسے گرانے والوں  کی ہر طرح سے مدد کر رہے تھے اور بہت سرمایہ فراہم کر رہے تھے-


ذرا پیچھے جائیں تو ہمیں یاد ہو گا کہ جنرل ایوب خان کے آخری دنوں میں اس کے اپنے مشیرپلاننگ کمیشن کے ڈاکڑ محبوب الحق نے یہ رپورٹ دی تھی کہ پاکستان میں معیشت پر باِئیس[22 ]خاندانوں کا قبضہ ہے-


[محبوب الحق نے جب وہ جونیجو کے وزیر تھے تو عوامی نمائندوں کو  {سیاسی رشوت} ترقیاتی فندز بھی دلوائے تھے جو آج بھی جاری ہیں]


پھر حزب اختلاف کا بایئس خا ندانوں کی اجارہ داری سب سے بڑا اور بنیادی نعرہ بن گیا-


اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانے میں بھی مغربی پاکستان کے انہیں لالچی  سرمایہ داروں کا ہاتھ تھا تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ یہی لوگ مشرقی پاکستان کی اقتصادیات اور معیشت پر قابض تھے- شائد بہت کم لوگوں کو پتہ ہو کہ شیخ  مجیب الرحمان مغربی پاکستان کے سرمایہ دار ہارون خاندان کی انشورنس کمپنی مِیں ملازم تھا- [پاکستانی قید سے رہائی کے بعد اس کے لندن میں قیام کا بندوبست انہوں نے ہی کیا تھا- ہمارے بزرگ دوست محمد اسحاق خاں بتاتے ہیں کہ قیام لندن کے دوران شیخ مجیب نے انہیں بتایا کہ اس نے پاکستان کی ترقی کے کون کون سے منصوبہ بنا رکھے تھے اور وہ علیحد گی نہیں چاہتا تھا]


ایوب خان کے آخری دنوں میں کیوں کہ ترقی پسند نظریات بہت مقبول تھے لہذا ہر سیاسی جماعت کے الیکشن منشور میں زرعی اصلاحات،سرمایہ داروں کی اجارہ داری اور سرمایہ کے ارتکاز کے خلاف نکات تھے -


پاکستان دو لخت ہو گیا اور نئے پاکستان یا موجودہ پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی-


اس نے اپنے وعدہ کے مطابق بڑی انڈسڑی اور بنکوں کو قومیا لیا- یہاں اس کے نتائج پر بحث مقصود نہیں ہے صرف اتنا عرض ہے کہ اسی قومیانے کی پالیسی سے نئے سرمایہ دار نکلے اور موجودہ سرمایہ داروں میں سے اکثر کا تعلق اسی بھٹو کی پالیسی سے ہے-


عمران خان جب بھی کراچی جاتا تھا تو فیصل آباد کے ایک سرمایہ دار کے گھر میں ٹھہرتا تھا۔ جب صدر علوی فیصل آباد آئے تو ان کی بیگم اپنے سرمایہ دار دوستوں کے گھر جانا نہیں بھولی-


بات کہاں سے کہاں چلی گئی-اب یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی شخص بغیرسرمایہ کے سیاست میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا-اور سرمایہ دار ہی سیاسی کٹھ پتلیاں نچاتے ہیں-


ابھی یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان کا شوگر مافیا عمران خان کے بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہے اور عمران خان ان کی مدد کے بغیر کیسے حکومت چلاتا ہے؟


عمران نے جہانگیر ترین کی دی ہوئی بلٹ پروف گاڑی تو واپس کردی ہے جس پر سیاسی لطیفہ یہ ہے کہ اسے جس سے بھی جو چیز لی تھی واپس کر دینی چاہئے-


پاکستان میں بھی نیو لبرل ازم اور مارکیٹ نے سرمایہ داروں کو مکمل کھل  کھیلنے کا موقع دیا- افغان جنگ میں بہت ڈالر آئے اب سرمایہ دار اتنے مضبوط اور طاقت ور ہو گئے ہیں کہ وہ حکومت بنا اور گرا سکتے ہیں-


اصل بات تو یہ ہے کہ کیا سرمایہ دار اسی طرح عوام کو لوٹتے رہیں گے؟ اب تو غیر ملکی کمپنیاں بھی پاکستان میں عوام کو بہت بڑے پیمانے پرلوٹ رہی ہیں-ہمیں تھوڑے عرصے میں پتہ چل جائے گا کہ عمران حکومت چینی سکینڈل میں کہاں تک جاتی ہے- جو لوگ شوگر انڈستڑی سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسان جو گنا اگاتا ہے اس کا کس بری  طرح استحصال ہوتا ہے-


شوگر انڈسٹری کا نکتہ نظر یہ ہے کہ وہ شوگر باہر بھیج کر اور قیمتیں بڑھا کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں-[ملکی مفاد میں منافع کما رہے ہیں]


آج شوگر کی صنعت میں پاکستانی سیاست دان پوری طرح شامل ہیں سب کے مفادات شوگر انڈسڑی کے ساتھ وابستہ ہیں-


کیا حکومت ان سب سے اکیلی نمٹ سکتی ہے اور ان کے وار سے محفوظ رہ سکتی ہے؟[فوج کی بھی شوگر ملیں ہیں] ۔ اس کا جواب جلد ہی سامنے آجائے گا- سرمایہ دار آپس میں لڑتے رہتے ہیں مگر عوام کے استحصال اور منافع خوری پر سب کا مکمل اتفاق ہے-


آج پاکستانی سیاست میں جاگیرداری کا خاتمہ اورسرمایہ کے ارتکاز، کارٹل کا خاتمہ کسی سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ نہیں ہے-کبھی کسان سے پوچھیں، گنے کے کاشت کار سے پوچھیں کہ ان کو کیا ملتا ہےاور شوگر مل میں کام کرنے والیےمزدور سے بھی؟