خبردار! کیا سنا مکی موت کا دوسرا نام ہے؟ جانیے اصل حقیقت

خبردار! کیا سنا مکی موت کا دوسرا نام ہے؟ جانیے اصل حقیقت
دنیا بھر میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی وبا نے پاکستان میں خطرناک صورتحال اختیار کر لی ہے اور یومیہ ہزاروں کی تعداد میں کیسز اور درجنوں اموات سامنے آرہی ہیں۔ اس وبا کا خاتمہ کب ہو گا؟ اب تک اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اس وبا کے ختم ہونے کی مدت کا تعین کیا جانا ممکن ہے۔

دنیا بھر کے طبی ماہرین اس خطرناک وائرس کا علاج ڈھونڈنے میں مصروف ہیں، اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ علاج ملنے کی صورت میں اس وبا پر قابو پایا جا سکے گا۔ تاحال طبی ماہرین کو کرونا وائرس کے علاج کے حوالے سے کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی لیکن آج کل ایک قدرتی نبات ’’ سنا مکی‘‘ کے قہوے کے سوشل میڈیا پر بہت چرچے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کرونا میں مبتلا مریض سنا مکی کا قہوہ پینے سے چند گھنٹوں میں صحت یاب ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اس وبا کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات کی بھرمار دیکھی گئی جس میں مختلف ادویات، جڑی بوٹیوں یا پھر کھانے پینے میں روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کو اس بیماری سے صحت یابی میں مددگار یا پھر اس کا علاج ہی قرار دے دیا گیا۔ یہ بات جہاں ادرک اور کلونجی سے شروع ہوئی وہیں آج کل سنا مکی نامی جڑی بوٹی کا چرچا ہے اور ایسی ادویات و جڑی بوٹیوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کا استعمال کرونا کے مریض کے جسم میں وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔

سنا مکی کے قہوئے سے کرونا وائرس کے علاج والے ٹوٹکے میں کتنی حقیقت ہے؟

سنا مکی یا سنا کے پتوں کا استعمال طویل عرصے سے حکیم اور طبیب پیٹ کے امراض خصوصاً قبض کی دوری کے لیے تجویز کرتے آئے ہیں۔ سنا مکی کے استعمال کی افادیت اور نقصانات کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہر غذائیت نیلم اعجاز کا کہنا تھا کہ لوگ سوچے سمجھے بغیر سوشل میڈیا پر ٹوٹکا شیئر کر رہے ہیں کہ سنا مکی سے کرونا وائرس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہربل ادویات اور جڑی بوٹیوں میں انسانی جسم میں سوزش کم کرنے کی خصوصیات ضرور موجود ہوتی ہیں جیسے کہ سادہ لیمن گراس کا قہوہ بھی استعمال کریں تو وہ بھی کانسی اور گلے کی سوزش میں آرام دیتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ سنا مکی کے قہوے کی تاثیر گرم ہوتی ہے اس لیے جب اسے استعمال کیا جاتا ہے تو مریض کا پیٹ خراب ہو جاتا ہے جس سے اس کے جسم میں نمکیات کی کمی واقع ہو جاتی ہے جو کرونا کے مریض کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خصوصی طور پر بلڈ پریشر، گردے اور جگر کے مریضوں کے لیے سنا مکی کا استعمال زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس جڑی بوٹی کا استعمال زیادہ کرے گا تو یہ اس شخص کے معدے کے کچھ حصے کو مستقل طور پر نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ بات ابھی تک ثابت نہیں ہوئی ہے کہ سنا مکی کا استعمال جان لیوا پھیپھڑوں کےانفیکشن یا عالمی وبا کرونا وائرس میں مفید ہے۔

امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ اپر چیساپیک ہیلتھ میں بطور چیف آف انفیکشن ڈیزیز فرائض انجام دینے والے ڈاکٹر فہیم یونس نے اپنی ٹوئٹر پوسٹس کے ذریعے وضاحت کی ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ یا اس کے علاج میں سنا مکی کے مفید ہونے کے کوئی واضح ثبوت نہیں ملتے مگر اس کے کثرت سے استعمال کے کئی نقصانات ضرور سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چین اور ایشیا میں روایتی جڑی بوٹیوں میں 61 فیصد آرسینک، سیسا (لیڈ)، کیڈمیئم، پایا جاتا ہے جب کہ ان جڑی بوٹیوں کا استعمال گردے اور جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی چیز کا ضرورت سے زیادہ استعمال پیسوں اور وقت کا ضیاع ہے، اس کے نتیجے میں آپ کو صحت سے متعلق مشکلات لاحق ہو سکتی ہیں۔ واٹس ایپ گروپ کی ویڈیوز اور جعلی خبروں پر کان دھرنے کے بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کریں، مجمع میں جانے سے گریز کریں، 6 فٹ کا فاصلہ رکھیں، بار بار ہاتھ دھوئیں اور ماسک کا لازمی استعمال کریں۔

لاہور کے میو ہسپتال میں زیرعلاج کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹر سلمان ایاز کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بہت سے ایسے مریض آئے جنھوں نے سنا مکی کے قہوے کا استعمال کیا اور اس کے بعد ان کی حالت مزید خراب ہو گئی۔

انھوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ یہ قہوہ پینے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے اور دست آنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مریض جسے پہلے ہی وٹامن اور اپنے جسم میں نمکیات بہتر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اسہال کی وجہ سے مزید بیمار ہو جاتا ہے۔ کرونا کے وہ مریض جنھیں معمولی علامات ہیں، اگر وہ ایسے ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں تو خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ اس کی علامات شدید ہو سکتی ہیں۔

خیال رہے کہ سوشل میڈیا پر دکھائی دینے والی اکثر معلومات بے سرو پا ہی ہوتی ہیں۔ صحت کے حوالے سے محتاط رہنا بڑا ضروری ہے، ہلکی سی کوتاہی اور لاپرواہی کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہے۔