قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد: کیا اپوزیشن جیت پائے گی؟

قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد: کیا اپوزیشن جیت پائے گی؟
اپوزیشن جماعتوں نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف متفقہ طور پر تحریک عدم اعتماد جمع کرادی ہے۔

تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ (ن)،پاکستان پیپلز پارٹی، ایم ایم اے، بی این پی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت محسن ڈاوڑ نےمتفقہ طور پر جمع کرائی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے کئی بار جانبداری کا مظاہرہ کیا، آج قاسم سوری نے کہا کہ وہ آئین کو نہیں مانتے، ایک ایسا شخص جو نو ماہ سے اسٹے کے اوپر ڈپٹی اسپیکر کی سیٹ پر بیٹھا ہے وہ آئین و قانون کی پاسداری نہیں کررہے۔ مرتضیٰ جاوید عباسی نے کہا کہ ایسے شخص کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس سیٹ پر بیٹھے،ہم جمہوری طریقے سے آئین کے مطابق کام کریں گے، یہ فیصلہ مشاورت سے ہوگا کہ اگلا ڈپٹی اسپیکر کا امیدوار کون ہوگا۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر  مسلم لیگ (ن)،  پیپلز پارٹی، جمیعت علماء اسلام، بی این پی مینگل، عوامی نیشنل پارٹی اور محسن داوڑ نے دستخط کر دیے۔

اس سے قبل اپوزیشن نے سینیٹ چئیرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی اور اپنوں کی بے وفائی اسے لے ڈوبی

ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف پیش کی گئیں اپوزیشن اور حکومت کی عدم اعتماد کی تحاریک ناکام ہوئیں۔


صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر اگست میں ایوان میں خفیہ رائے شماری ہوئی، جس میں 100 ارکان نے حصہ لیا۔ مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار نے (حلف نہ اٹھانے کے باعث) اور سینیٹر چوہدری تنویر نے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ جماعت اسلامی کے دو ارکان نے بھی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد سینیٹ اجلاس کی صدارت کرنے والے پریزائیڈنگ آفیسر بیرسٹر سیف نے بتایا کہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50 ووٹ پڑے، یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ تعداد (53 ووٹ) نہ ہونے کے باعث تحریک کو مسترد کیا جاتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ان کے پاس نمبر گیم پورا ہے، تاہم پانسہ حکومت کے حق میں پلٹ گیا۔ مریم نواز نے  ان غداروں کا حساب کرنے کی دہائی بھی دی۔


دوسری جانب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی ناکام ہوگئی۔ ڈپٹی چیئرمین کے خلاف پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے حق میں صرف 32 ووٹ آئے، جس کے باعث اسے بھی مسترد کردیا گیا۔ بعدازاں سینیٹ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔


قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن:


قومی اسمبلی میں 340 ارکان کی پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے پاس 156 سیٹیں ہیں جبکہ حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم کے پاس 7، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 5، 5، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پاس 3، عوامی مسلم لیگ  اور جمہوری وطن پارٹی کے پاس ایک، ایک  نشست ہے۔ دو آزاد امیدوار اسلم بھوتانی اور میر علی نواز شاہ حکومتی اتحاد کاحصہ ہیں یوں حکومتی اتحاد کی تعداد 180 ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن بنچز پر موجود مسلم لیگ ن کے پاس 83، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 55 جبکہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے پاس 15، بی این پی کے 4 اور عوامی نیشنل پارٹی  کے پاس ایک نشست ہے۔  دو آزاد امیدوار علی وزیر اور محسن داوڑ بھی اپوزیشن نشستوں پر موجود ہیں اور اس طرح اپوزیشن بنچز پر موجود ارکان کی تعداد 160 ہے۔