سپریم کورٹ نے آرڈیننس کے اجرا کو آئین سے انحراف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی شرائط کے بغیر صدر اور گورنرز آرڈیننس کا نفاذ نہیں کر سکتے۔
تفصیل کے مطابق عدالت عظمیٰ نے آرڈیننس کے اجرا سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 30 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے ہر لفظ پر سختی سے عمل ہونا چاہیے۔ آرڈیننس جاری کرنے کیلئے آئین میں طریقہ کار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہنگامیت کے بغیر آرڈیننس جاری کرنے آئین سے انحراف ہے۔ آئینی شرائط کے بغیر صدر اور گورنرز آرڈیننس نافذ نہیں کر سکتے۔ آرڈیننس کچھ ماہ بعد ختم ہو جاتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس کے ذریعے طویل مدتی حقوق اور ذمہ داریاں دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ جمہوری ملک میں عوام منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ قانون سازی کے عمل میں یقینی بنایا جائے کہ عوام کے حقوق پامال نہیں ہوئے۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ انکم سپورٹ لیوی ایکٹ 2013 کی سینٹ سے منظوری نہیں لی گئی۔ عوامی نمائندوں کے زریعے ہونے والی قانون سازی آئینی تقاضا ہے۔ ملک میں نمائندہ جمہوریت عوام کو متحد اور خیر سگالی کو جنم دیتی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ہونے والی قانون سازی سے عوام بااختیار اور وفاق مضبوط ہوتا ہے۔ آئین کی خلاف ورزی عوام کی بے توقیری اور تباہ کن ہے۔