جنرل باجوہ عمران خان، معاونین کی کرپشن کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے: صحافی اسد طور

جنرل باجوہ عمران خان، معاونین کی کرپشن کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے: صحافی اسد طور
صحافی اسد علی طور نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سابق وزیراعظم عمران خان، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سمیت ان کے معاونین اور سہولتکاروں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں جس کے بدلے میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ان کو 'ایمنسٹی' حاصل ہو گئی ہے۔

صحافی اسد علی طور نےِوٹیوب پر اپنے وی-لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں اور اب قمر جاوید باجوہ وزیراعظم شہباز شریف کو مشورے دے ہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ کس نے کہاں کتنی کرپشن کی۔ اس کے بدلے میں انہیں ایک ایمنسٹی مل رہی ہے۔ ایک عام معافی مل رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز صرف سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کر رہی ہیں اور سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا جارہا۔

اصولی طور پر پی ڈی ایم حکومت کو فیض حمید پر آرٹیکل 6 لگانے کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن حکومت آرٹیکل 6 نہیں لگا رہی کیونکہ اس کے تحت حکومت ان کے خلاف سیویلین اور  آئینی امور میں مداخلت پر کارروائی کرے گی، ان پر اپنے حلف کی پاسداری نہ کرنے پر کارروائی ہو گی۔ اگر آرٹیکل 6 لگا تو پھر وہ فیض حمید اور قمر باجوہ دونوں پر لگے گا۔ لیکن کیونکہ شہباز  شریف کی زیر قیادت حکومت یہ مطالبہ نہیں کررہی کیونکہ  اس عمل سے جنرل باجوہ بھی متاثر ہوں گے۔ ان کے علاوہ بھی اس وقت کے جتنے کور کمانڈرز ملوث تھے ان پر بھی لگے گا۔ اس پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے فیض حمیدکے خلاف کرپشن کے کیسز میں کارروائی ہو گی۔ جس کے لئے نیب یا ایف آئی اےکی مدد حاصل کی جائے گی۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو اس سے فوج میں موجود اور بھی لوگوں پر بات آئے گی ۔ بہت سے جرنیلوں نے کرپشن کی ہے۔ مثال کے طور پر 'پیزا والا' کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور ان کی امریکہ میں جائیدادیں اور پلازے ۔

نیب میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر بٹ کو لایا گیا ہے وہ اس کارروائی کا آغاز کریں گے یا فوج کا ادارہ خود کرے گا کیونکہ فیض حمید کے خلاف سنگین مبینہ کرپشن کے الزامات ہیں جن کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

فیض حمید کی جو لابی تھی اس میں مختلف ریٹائرڈ جرنیل تھے، انہیں 20، 20 لاکھ روپے پر ملک ریاض کے پاس کنسلٹنٹ لگوایا ہوا تھا۔ نہ کوئی کام کرتے تھے نہ ہی کسی دفتر جاتے تھے اور ہر مہینے 20 لاکھ ان کے اکاونٹ میں آجاتا تھا۔ یہ وہی ریٹائرڈ افسران تھے جو پی ٹی آئی کے حق میں بہت اچھل رہے تھے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کرنل، کیپٹن سب کا ایک نیٹ ورک بنایا ہوا تھا۔

صرف فیض حمید کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیوں کیا جارہا ہے اور ن لیگ قمر باجوہ کے خلاف کسی کارروائی کا مطالبہ کیوں نہیں کررہی؟

سارا جرم کیا دھرا تو  سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا ہے۔اور اب اس جرم پر سے پردہ بھی وہ خود ہی ہٹا رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ پی ٹی آئی نے کتنی کرپشن کی ہے۔ انہوں نے اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کی ہے جس کے آگے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی کرپشن بھی بہت کم نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف حکومت کی کابینہ کے وزراء تو گاڑیوں کے ٹائروں کی قیمت پر بک جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میری پجیرو کے ٹائر ڈلوا دو تمہارا کام ہو جائے گا۔ اس لیول تک جاکر ان لوگوں نے پیسہ کھایا ہے۔خود جنرل باجوہ نے 12۔7 ارب کے اثاثے تو انہوں نے بھی بنائے۔

قمر جاوید باجوہ وزیراعظم شہباز شریف کو مشورے دے ہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ کس نے کہاں کتنی کرپشن کی۔ اس کے بدلے میں انہیں ایک ایمنسٹی مل رہی ہے۔ ایک عام معافی مل رہی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کے اپنے بھی بہت سارے معاملات ہیں۔ بات کورٹ مارشل تک بھی جائے گی۔

حکومت جانتی ہے کیونکہ فوج ایسا ادارہ ہے جو اپنے سابق آرمی چیف کے خلاف مقدمہ چلانے پر اعتراض کرے گا جیسا کہ ادارے نے مشرف کیس میں کیا تھا۔

فیض حمید کے خلاف کارروائی حکومت کے لئے مشکل نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل بھی ایک لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اقبال پر جنرل باجوہ کے دور میں کارروائی ہوئی تھی۔ ان کو سزا بھی ملی تھی اور ان کو جنرل عاصم منیر نے آکر عام لیکن مشروط معافی دی تھی۔ راحیل شریف کے دور میں ایک ڈی جی ایف سی کا کورٹ مارشل ہوا۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید اب کورٹ مارشل ہونے سے خوفزدہ ہیں اور انہیں احساس ہے کہ شاید وہ گرفتار ہو جائیں گے۔ اس لیے ان کا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے  اشارہ دیا ہے کہ جیل جانے والا وہ اکیلے نہیں ہوں گے۔

فیض حمید نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹانے کے الزام کے بارے میں کھل کر کہا کہ ان پر الزامات لگائے جارہے ہیںکہ انہوں نے 2017-18 کے دوران  ایک وزیراعظم کی حکومت گرائی۔ وہ اس وقت ڈی جی سی آئی ایس آئی تھے اور اس عہدے کے شخص (میجر جنرل) کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ تن تنہا کیسے ایک حکومت کو گرا سکے۔

فیض حمید نے کہا کہ وہ اس سب کے ذمہ دار  اکیلےنہیں ہیں اور وہ صرف اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر)  قم جاوید باجوہ کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں کیونکہ نواز حکومت کو گرانا اور عمران خان کو اقتدار میں لانا باجوہ ڈاکٹرائین کا حصہ تھا۔ ان کی یہ بات درست بھی ہے کیونکہ انہوں نے یہ سب اکیلے نہیں کیا۔یہ سب باجوہ ڈاکٹرائین پر عملدرآمد تھا۔ ڈی جی سی ہمیشہ آرمی چیف کا انتخاب ہوتا ہے اور آرمی چیف کی سپورٹ کے ساتھ کام کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمیدکے خلاف تحقیقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فیض حمیدکے خلاف تحقیقاتی ادارے انکوائری کر رہے ہیں۔ کوئی پیش رفت ہوئی تو سامنے آجائےگی۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کا کورٹ مارشل نہیں کر سکتی۔ ایسا کرنے کا اختیار صرف ادارہ اور  جی ایچ کیو کا ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی سینیئر نائب صدر مریم نواز شریف نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کا کورٹ مارشل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کا کورٹ مارشل کیا جانا چاہیے۔

ایک ویب چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے عمران خان کی حمایت کرکے 4 سال ملک کو تباہ کیا۔ انہوں نے جج کے گھر جاکر کہا کہ نواز شریف کو سزا دو۔ ن لیگ کی حکومت گرانے میں کردار ادا کیا۔

مریم نواز نے کہا کہ ادارے اپنی بربادی کا باعث بننے والے عناصر کو سزا دیں۔ جنرل (ر) فیض حمید کو نشان عبرت بنایا جائے۔ ان کا کورٹ مارشل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہائبرڈ نظام لانے والوں کو سب سے بڑی سزا ووٹ کو عزت دو کی عوامی آگاہی مہم سے ملی۔ چند افراد اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ اداروں کو ایسے افراد کو سزا دینی چاہیے۔