Get Alerts

محمد بن قاسم نے سندھ میں اسلام پھیلایا یا دہشت؟

محمد بن قاسم نے سندھ میں اسلام پھیلایا یا دہشت؟
10 رمضان کے آتے ہی اکثر سوشل میڈیا پر سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے کو لے کر گرما گرم بحث چل پڑتی ہے جس پر جذباتیت کا رنگ غالب رہتا ہے۔ تاریخی شعور کی کمی کے باعث ہمارے ہاں اب تک حملہ آوروں کو ہیرو یا ولن کے آئینے میں دیکھنے کا چلن جاری ہے اور حقائق کی طرف کم ہی توجہ ہوتی ہے۔ تاریخ کے عمل کو دلیل اور شواہد کے بجائے جب جذبات کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں واقعات تعصبات کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں اور کچھ سبق سیکھنا ممکن نہیں رہتا۔

سندھ کو فتح کرنا ہمیشہ سے عربوں کا خواب رہا تھا

ہمارے پاس جو تاریخی شواہد ہیں، ان کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کا ارادہ ابتداء ہی سے سندھ فتح کرنے کا تھا مگر حالات کے ناسازگار ہونے کی وجہ سے وہ انتظار کرتے رہے۔ جب عربوں نے شام و عراق اور ایران کو فتح کیا، تو سندھ کی فتح بھی ان کے منصوبہ میں شامل تھی۔ اس دور میں دولت زراعت سے پیدا ہوتی تھی اور وادئ سندھ بھی وادئ نیل و فرات کی طرح دولت سے مالا مال تھی۔ حضرت عمر کے زمانہ میں مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر دیبل پر حملہ کیا گیا جو ناکام رہا۔ حضرت عثمان کے زمانے میں حضرت حکیم بن جبلہ عبدی سمندر کے راستے بلوچستان و سندھ کے مشرقی حصہ کو دیکھ کر آئے اور اس کے بارے میں یہ رپورٹ دی:

”وہاں کا پانی میلا اور پھل کھٹے ہیں۔ زمین پتھریلی ہے، مٹی شوریدہ ہے اور باشندے لڑاکے ہیں۔ اگر تھوڑا لشکر جائے گا، تو جلد تباہ ہوجائے گا اگر زیادہ جائے گا، تو بھوکوں مرئے گا۔“( احمدبن یحیی بلاذری، فتوح البلدان، جلد3، ص530. )

چچ نامہ نے حضرت علیؑ کے بارے میں حکیم ابن جبلہ کا ایک قصیدہ بھی نقل کیا ہے:

ليس الرزيہ بالدينار نفقدۃ

ان الرزيہ فقد العلم والحكم

وأن أشرف من اودي الزمان بہ

أهل العفاف و أهل الجود والكريم

(چچ نامہ، سندھی ادبی بورڈ، صفحہ 102، جامشورو،2018ء)

حضرت علیؑ کے زمانہٴ حکومت (656ء۔ 661ء) میں مسلمان مکران تک آئے مگر سیاسی وجوہات کی بناء پر آگے نہیں بڑھے۔ امیر معاویہ کے زمانہ (661ء۔ 680ء) میں فتوحات کے لیے مہمات بھیجی گئیں، مگر فوج نے مکران میں شکست کھائی اور آگے نہ بڑھ سکی۔ دور اُمیہ میں امیر معاویہ سے لے کر ولید (705ء۔715ء) کے عہد تک عرب مکران کابل اور قندھار کے علاقوں میں برابر مصروف جنگ رہے۔ چوںکہ یہ پہاڑی علاقے تھے اور یہاں کے باشندے قبائل جنگ جوتھے، اس لیے وہ برابر عربوں کے اقتدار کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ اس لیے عربوں کو اس کا موقع نہیں ملا کہ خشکی کے راستے سندھ پر حملہ کرتے۔ ولید کے عہد میں جب مکران و کابل پر ان کا تسلط قائم ہوگیا، تو خشکی کے راستوں کے ذریعہ سندھ کی سرحد سلطنت امویہ سے مل گئی اور ان کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ اپنی فتوحات کو سندھ تک بڑھائیں۔

حجاج بن یوسف کا کردار

سندھ کی فتح کا واقعہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کی خلافت (705ء۔715ء) کے دوران پیش آیا۔ حجاج بن یوسف خلافت کے مشرقی صوبوں کا گورنر تھا۔ اس کے نزدیک اموی خاندان کا استحکام اور اُس کی طاقت و قوت میں اضافہ اس کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ چنانچہ اس نے حجاز پر حملہ کر کے حضرت ابوبکر کے نواسے حضرت عبد اللہ بن زبیر کی حکومت ختم کی اور ان کی لاش مسجد الحرام میں عبرت کے لیے ٹانگی۔ پھر وہ عراق گیا اور حضرت ابوبکر کے بھانجے کے بیٹے عبد الرحمن بن محمد بن الاشعث کی بغاوت کو کچلا۔ ان کے ساتھی حضرت عطیہ ابن سعد عوفی ایران بھاگ گئے۔ اس وقت حجاج کا بھتیجا اور داماد محمد بن قاسم شیراز کا گورنر تھا۔ حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ عطیہ بن سعد کو طلب کر کے ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو گرفتار کر کے حجاج کا حکم سنایا۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر چار سو کوڑے لگوائے(ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد 4، صفحہ 511)۔



چچ نامہ کی مظلوم لڑکی

عام طور پر پاکستانی مؤرخین سندھ پر عربوں کے حملہ کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سر اندیپ سے کچھ مسلمان عورتیں اور بچے جہازوں میں سوار ہوکر جب بندر گاہ دیبل پر پہنچے، تو یہاں بحری قزاقوں نے ان جہازوں کو لوٹ لیا۔ جب عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرکے لے جایا جا رہا تھا، تو ایک لڑکی نے فریاد کرتے ہوئے حجاج سے مدد طلب کی۔ جب حجاج کو اس کی اطلاع ملی، تو وہ اس سے انتہائی متاثر ہوا اور اس نے فوراً سندھ کی فتح کا ارادہ کرلیا۔ عربوں کی لکھی گئی فتحِ سندھ کی روداد ”چچ نامہ“ کے ان بیانات کو آنے والے مؤرخین نے اسی طرح بلا کم وکاست نقل کردیا اور سندھ پر عربوں کے حملے کا کوئی تجزیہ نہیں کیا۔ اول تو اس واقعہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب تمام عورتیں، بچے اور مرد گرفتار کرلئے گئے، تو پھر اس خبر کو حجاج تک پہنچانے والا کون تھا؟ کیوں کہ کسی ایک شخص کا گرفتاری سے بچنا اور پھر سندھ سے بصرہ تک کا بحری یا خشکی کا سفر کرنا آسان کام نہیں تھا۔ اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ اس قسم کی خبر حجاج کو پہنچی، تو حجاج کی شخصیت اور کردار کو سامنے رکھ کر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر راجا داہر کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی خرابی صرف یہ واقعہ ہوا تھا اور دوسری سیاسی وجوہات نہیں ہوئیں، تو کیا حجاج کو ایک لڑکی کی فریاد اتنا متاثر کرسکتی تھی کہ وہ ایک بڑی فوج خلیفہ کی مرضی کے خلاف اور مالی مشکلات کے باوجود سندھ بھیجتا؟ حجاج جذبات سے عاری ایک سیاست دان تھا اور وقتی جوش کے سبب وہ اس قدر اہم فیصلہ نہیں کرتا تھا۔ اس نے اپنے اقتدار کے زمانے میں جس طرح ہزاروں افراد کو جیل میں ڈالا اور سیکڑوں کو قتل کیا۔ اسی کے سیاسی عزائم میں ایک لڑکی کی فریاد کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

عرب تاجروں کے مفادات

عرب تاجر تجارت کی غرض سے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں آتے جاتے تھے اور جگہ جگہ ان کی نو آبادیاں قائم تھیں۔ ہندوستان کی ریاست کیرالہ میں ”چیرامن مسجد“ کے نام سے ایک ایسی مسجد بھی موجود ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانے سے منسوب کی جاتی ہے۔ جزیرہ سراندیپ (لنکا) میں بھی عرب مسلمان تاجر آباد تھے۔ اس لیے عرب تاجروں کے جہازوں پر بحری قزاقوں کے حملے نے حکومت کے سامنے یہ مسئلہ پیدا کیا کہ اگر سمندری راستوں کی حفاظت نہیں کی گئی، تو اس کا اثر تجارت پر ہوگا۔ اس لیے حجاج نے فوراً راجا داہر سے خط و کتابت کرکے جہازوں کے لوٹ کے بارے میں معلومات کیں لیکن، چچ نامہ کے مطابق، راجا داہر نے سرے سے اس بات سے ہی انکار کردیا کہ یہ جہاز اس کے اشارے پر لوٹے گئے ہیں یا اُس کا اثر و رسوخ ان قزاقوں پر ہے۔ راجا داہر کے اس جواب کے بعد حجاج نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ سندھ پر حملہ کرکے اسے فتح کرے تاکہ دیبل کی بندر گاہ اور سمندر کا راستہ مسلمان تاجروں کے لیے محفوظ بنایا جائے۔ اس ضمن میں مسلمان عورتوں اور بچوں کی گرفتاری اور ایک لڑکی کی فریاد ایسا قصہ تھا جس سے عربوں میں جوش پیدا کیا جاسکتا تھا۔ اس واقعہ کی تشہیر سے راجا داہر کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور مالِ غنیمت کے لالچ کے ساتھ ساتھ سندھ پر حملہ کرنے کا اخلاقی جواز بھی پیدا ہوگیا۔

پارسی اور عرب باغیوں کی سرکوبی

اس کے علاوہ بھی مؤرخین نے سندھ پر عربوں کے حملہ کی وجوہات تلاش کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ سندھ کے راجا نے ایرانیوں اور عربوں کی جنگوں میں ایرانیوں کی مدد کی تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کو سندھ پر حملے کا حق حاصل ہوچکا تھا یا یہ کہ بہت سے پارسیوں نے عربوں سے شکست کھا کر سندھ میں پناہ لی تھی۔ وہ اس علاقے میں رہتے ہوئے عربوں سے آزادی کے حصول کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اسی طرح وہ عرب جو بنی امیہ کے طرزِ حکومت سے خوش نہ تھے، مثلاً اعلافی، وہ یا تو خراسان میں پناہ لینے جاتے تھے یا سندھ آ جاتے تھے۔

کیا محمد بن قاسم سندھ میں سادات کو قتل کرنے آیا تھا؟

محمد بن قاسم نے 711ء میں سندھ پر حملہ کیا اور 715ء میں نئے خلیفہ نے اسے سزائے موت دے دی تھی۔ اس وقت امام حسین کی نسل سے صرف حضرت علی زین العابدین اور انکے بچے موجود تھے۔ امام حسن کی اولاد بھی چند گنے چنے نفوس پر مشتمل تھی۔ ان کے فرزندوں کے سندھ آنے کا کوئی ذکر تاریخ میں نہیں آیا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اس دور کے جو مسلمان جو بنی امیہ کی حکومت سے تنگ ہوتے تھے، ان میں خراسان اور قندھار کی طرف جانے کا رجحان نظر آتا ہے۔ تاہم بنی امیہ سے تنگ آ کر کچھ افراد کا سندھ آنا بھی خارج از امکان نہیں۔ لیکن ان کی سرکوبی کو سندھ پر حملےکا بنیادی مقصد قرار دینے جیسے بڑے دعوے کیلئے مضبوط شواہد کی ضرورت ہے جو موجود نہیں ہیں۔ عبداللہ شاہ غازی کو اگر تاریخ میں ڈھونڈا جائے تو 769ء عیسوی میں محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبداللہ اشتر کا ذکر ملتا ہے جنہیں عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے قتل کرایا تھا۔ تاریخ طبری کے مطابق یہ واقعہ 151 ہجری میں پیش آیا۔ ( تاریخ‌طبری‌، جلد6، ص289-292.) چنانچہ عبداللہ شاہ غازی اور انکے ساتھیوں کے قتل کو بھی محمد بن قاسم سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

کیا راجا داہر بدکردار تھا؟

چند لوگ راجا داہر پر بہن سے شادی کرنے کے الزامات لگا تے ہیں، انہوں نے یہ سارے الزام چچ نامہ سے لئے ہیں۔ یہ کتاب حملہ آور عربوں کے لکھے گئے جنگی پروپیگنڈے کا ترجمہ ہے۔ جس دور میں اموی لشکر سندھ پر حملہ آور ہوا تھا اس دور میں سرکاری سرپرستی میں جعلی حدیثیں گھڑنے کا دھندہ عروج پر تھا، اور اسی وجہ سے بعد کے محدثین کو صحیح اور جعلی احادیث میں فرق کرنے کیلئے علمِ رجال کی بنیاد رکھنا پڑی۔ ہندوؤں میں بہن سے شادی تو کیا، کزن سے شادی بھی حرام ہے، وہ مسلمانوں کو اس بنیاد پر برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے جس سے ہندوؤں میں اسلام اتنی تیزی سے نہیں پھیلا جتنی تیزی سے بدھ مت کے ماننے والوں میں پھیلا، اور وسطی ایشیاء اور وادئ سندھ سے بدھ مت کا خاتمہ ہو گیا۔ راجا داہر کے خلاف پروپیگنڈا یہاں کی مقامی ثقافت سے میل نہیں کھاتا ہے نہ ہی اس کو اس کے عرب مخالفین کی کتابوں کے علاوہ کسی ماخذ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔

کیا راجا داہر سندھی نہیں تھا؟

بعض لوگ راجا داہر کو غاصب ثابت کرنے کیلئے یہ کہتے ہیں کہ اسکا تعلق کشمیر یا شمالی پنجاب کے خاندان سے تھا اور وہ بھی سندھ پر غاصب تھا۔ حقیقتِ امر یہ ہے کہ کشمیر سے گوادر تک کا علاقہ وادئ سندھ کا حصہ تھا۔ پنجابی اور سندھی زبانیں ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ پنجاب کو الگ نام سے پکارنے کا سلسلہ مغلیہ دور سے شروع ہوا۔ سندھی تہذیب کو صوبہء سندھ تک محدود کرنے کا سلسلہ انگریز دور میں شروع ہوا۔ آثار قدیمہ کے مطابق گندھارا، ہڑپہ اور موئنجو دڑو کی تہذیبیں بھی بہت مماثلت رکھتی ہیں۔ محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے کابل و کشمیر سے مکران و بمبئی تک کے لوگوں کی زبان اور مذہب ایک ہی تھے۔ یہاں کی تقریباً آدھی آبادی بدھ مت سے تعلق رکھتی تھی اور اتنی ہی ہندوؤں کی تھی۔ ہندو آبادی اکثر دیہاتوں میں رہتی اور صوفی مسلک تھی۔ بدھ مت کے ماننے والے شہروں میں زیادہ تھے۔ وہ تاجر تھے اور بدھ کی تعلیمات کے ظاہری معنوں پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ اسی لئے جو لوگ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے انکی توجہ تصوف کی طرف زیادہ رہی اور جو بدھ مت سے مسلمان ہوئے انکا جھکاؤ احادیث کی طرف تھا۔ راجا داہر اسی تہذیب کا فرزند اور اسی سرزمین کا مدافع تھا۔ کچھ افراد یہ کہتے ہیں کہ داہر کیسا کمزور راجا تھا جو ایک سترہ سالہ لڑکے سے ہار گیا۔ بات یہ ہے کہ سندھ پر حملہ ایک لڑکے نے نہیں، بلکہ ایک فوج نے کیا تھا جس میں ماہر جنگجو شامل تھے اور جس کا حجاج سے مسلسل رابطہ تھا اور ہر تین دن بعد قاصد آنے کا سلسلہ قائم تھا۔ اسکا ہارنا ایسا ہی ہے جیسے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور سکھ طاقتور دشمنوں کے مقابلے میں ہارے۔

کیا سندھ میں اسلام محمد بن قاسم نے پھیلایا؟

قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان تو اسی وقت بن گیا تھا جب پہلا مسلمان سندھ کے ساحل پر وارد ہوا۔ اس سے بعض لوگوں نے محمد بن قاسم مراد لیا ہے جبکہ مسلمان دورِ نبوی میں ہی موجودہ پاکستان کے علاقے میں آ چکے تھے۔ سندھ اور عرب کے درمیان تجارتی تعلقات صدیوں سے قائم تھے اور تاجر اور سیاح اپنی مسافرت کے دوران مختلف افکار اور تہذیبی اثرات کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ سندھ میں 711ء میں حجاج بن یوسف کی طرف سے محمد بن قاسم کے ذریعے حملے سے بہت پہلے اسلام آ چکا تھا۔ نہ صرف اسلام کے ابتدائی عرصے کی تاریخ میں متعدد عرب مسلمانوں کے سندھ آنے کا ذکر ملتا ہے بلکہ سندھ سے کئی نو مسلموں کے عرب و عراق جانے اور وہاں اہم کردار ادا کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جاٹ کو عربی میں زط اور سیابجہ کہا جاتا ہے۔ بلاذری اور ابن خیاط کے مطابق 656ء میں عراق میں ہونے والی جنگِ جمل میں بصرہ کے خزانے کی حفاظت کیلئے حضرت علی کی طرف سے متعین کردہ سپاہیوں میں موجودہ پنجاب اور سندھ کے جاٹ بھی شامل تھے جو خزانے پر یلغار کے دوران قتل ہوئے۔( احمدبن یحیی بلاذری، فتوح البلدان، جلد2، ص462. ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کے مقامی باشندوں میں اسلام کو قبول کرنے اور جنگوں میں شریک ہونے تک کا رجحان موجود تھا۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم حوالہ امام حسین کے بیٹے زین العابدین (659ء - 713ء) کی دوسری شادی کا ہے، جو ایک سندھی خاتون جیدا السندي سے ہوئی جن سے 695ء میں انکے فرزند امام زید بن علی پیدا ہوئے۔ اسطرح سندھ زیدی سادات کا ننھیال ہے۔

محمدبن قاسم کے سندھ پر حملے کا مقصد دولت اور زمین پر قبضہ کرنے اور بیٹیوں سے جبر کرنے اور انکو لونڈیاں بنا کر بازاروں میں بیچنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسے مقامی آبادی کا مذہب بدلنے سے بھی کوئی غرض نہ تھی۔ تاریخ و احادیث کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتوحہ علاقوں میں لشکریانِ بنی امیہ کی توجہ اسلام پھیلانے کے بجائے جزیہ کی آمدنی بڑھانے پر ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ وہ نو مسلموں پر بھی یہ کہہ کر جزیہ لگاتے تھے کہ یہ دل سے مسلمان نہیں ہوئے۔ دوسری طرف چچ نامہ میں ایسے متعدد مقامی غیر مسلموں کا ذکر ہے جنہیں محمد بن قاسم نے راجا داہر سے بے وفائی کرنے کے انعام میں عہدوں سے نوازا۔ یہاں اس کے دور میں اسلام کی تبلیغ کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔

اگر موجودہ پاکستان کے علاقوں میں اسلام کے پھیلنے کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسلام آہستہ آہستہ پھیلا۔ مختلف اسلامی مسالک کے مبلغین یہاں آتے رہے لیکن یہاں مقامی ثقافت سے ہم آہنگ افکار کو ہی پذیرائی ملی۔ چنانچہ جب 1005ء میں محمود غزنوی نے یہاں حملہ کیا تو ملتان پر اسماعیلیوں کی حکومت تھی جس کی آبادی کا بڑا حصہ غیر مسلموں پر مشتمل تھا۔ نیز ہندوستان کے ایسے علاقے جن پر مسلمانوں کا اقتدار نہ تھا، وہاں بھی مسلمان دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امن و سلامتی سے رہتے رہے ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کی حکومت میں ہندو اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں تو ہندو بادشاہوں کی حکومت میں مسلمان عہدیداروں کا ذکر مل جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ (متوفیٰ 1761ء) سے پہلے کے برصغیر میں شدت پسندی کی مثالیں بہت کم ہیں۔

محمد بن قاسم کو ہیرو بنانے میں کیا برائی ہے؟

محمد بن قاسم کو ہیرو بنانے کا سلسلہ بیسویں صدی میں شروع ہوا جب جدید ٹیکنالوجی اور اصلاحات کی وجہ سے عوام شریک اقتدار ہوئے اور ہندو مسلم دشمنی کی سیاست نے عروج پایا۔ اسی دوران ہندوؤں میں شدھی تحریک، راشٹریہ سیوک سنگ، اور ساورکر جیسے فاشسٹ پیدا ہوئے تو مسلمانوں میں مجلس احرار، خاکسار اور جماعت اسلامی نے مذہبی فاشزم کو اختیار کیا۔ اس دوران ماضی سے ایسے برے کرداروں کو تلاش کر کے پھولوں کے ہار پہنائے جانے لگے۔ ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں نصابِ تعلیم مرتب کرنے والوں نے پاکستانی بچوں کو افغان جہاد میں استعمال کرنے کیلئے جنگجو بنانا چاہا تو ان کیلئے محمد بن قاسم سے بہتر نمونہ کون ہو سکتا تھا؟ چنانچہ تاریخی حقائق کو جھٹلا کر اس کو پہلا پاکستانی قرار دے دیا گیا۔ لیکن پاکستانی معاشرے نے ڈکٹیٹر کے اس گناہ کا خمیازہ خودکش حملوں، غربت اور جہالت کی شکل میں بھگتا۔ جب ہم ایسے لوگوں کو ہیرو قرار دیں جنہوں نے ظلم کیا ہو تو ہم ظلم کو برا نہیں سمجھتے۔ ماضی کے برے کرداروں کو برا نہ کہنے سے انکی برائی ہمارے اندر آ جاتی ہے۔

بیرونی حملہ آور ہیرو نہیں ہو سکتے

اس مرحلہ پر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ جب بھی غیر ملکی حملہ آور کسی ملک پر حملہ کرتے ہیں ، اس پر قبضہ کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں نہ صرف اس ملک کا سیاسی، سماجی اور معاشی نظام ٹوٹتا ہے اور معاشرہ بے چینی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے ذرائع کو یہ حملہ آور غصب کے لیتے ہیں اور ملک کو مفلس اور کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ اب اگر ہم اپنے مسلمان حملہ آوروں کو ان کے جنگی جرائم اور لوٹ مار پر معاف کر دیں، ان کے قتل عام کو نظر انداز کر دیں، تو اس صورت میں ہم کبھی بھی حقیقی تاریخی شعور پیدا نہیں کر سکیں گے اور تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ جہاں تک حملہ آوروں کا تعلق ہے، اس میں ہمیں اس فرق کو قائم نہیں رکھنا چاہئیے کہ یہ ہمارے ہیں یا دوسروں کے ہیں۔ کیونکہ حملہ آور چاہے وہ کوئی ہوں، ان کا مذہب، نسل اور زبان کوئی ہو، وہ حملہ آور ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہئیے اور تاریخ کے ساتھ انصاف کرنا چاہئیے۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں بنیادی ماخذ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مبارک علی کی کتابوں سے مدد لی گئی ہے

صدیق اکبر نقوی حوزہ علمیہ نجف میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات و نطریات پر گہری نظر رکھتے ہیں