Get Alerts

'بنتِ داہر': جب محمد بن قاسم اور راجکماری سوریا نے مل کر بغاوت کر دی

راج کماری اور محمد بن قاسم کے مابین تعلق دھیرے دھیرے محبت میں بدل گیا جو راج کماری کی جانب سے نفرت، شکوک و شبہات اور غیریقینیت جبکہ محمد بن قاسم کی جانب سے اس احساس کے ساتھ شروع ہوا تھا کہ شہزادی کو خلیفہ کے پاس بھجوایا جانا ہے۔ محمد بن قاسم اب اسے دمشق بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

'بنتِ داہر': جب محمد بن قاسم اور راجکماری سوریا نے مل کر بغاوت کر دی

صفدر زیدی ایسے ناول نگار ہیں جو تاریخی اور عصری متنازعہ واقعات کو منتخب کرتے ہیں جنہیں وہ سماجی، تاریخی اور سیاسی تعلقات کی مختلف پرتوں کو گہرے مطالعے میں گوندھ کر تصوراتی اور تخلیقی انداز میں پیش کرتے ہیں۔

ان کا تازہ ترین ناول، بنتِ داہر (داہر کی بیٹی) تاریخی ناول کی صنف کے ایک بہت ہی خاص ذیلی زمرے تاریخی رومانس سے تعلق رکھتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار راج کماری سوریا ہے، جو سندھ کے آخری ہندو حکمران راجہ داہر کی بیٹی ہے۔ 712 عیسوی میں نوجوان عرب جرنیل محمد بن قاسم کی قیادت میں حملہ آور عرب فوج کے ہاتھوں راجہ داہر کو شکست ہوئی تھی۔ اس کا سر قلم کر دیا گیا اور اسے دمشق میں مسلمانوں کے خلیفہ الولید کے پاس بھیج دیا گیا۔

راجہ داہر کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی لہٰذا راج کماری کی تربیت بطور ولی عہد شہزادی کے طور پر ہوئی تھی۔ راجہ داہر نے اسے نہ صرف ویدک فلسفے اور حکمرانی کی بہترین تعلیم دی تھی بلکہ اسے مارشل آرٹس اور عسکری سائنس کی بھی بھرپور تربیت دی تھی۔

ایسے حکمران جو ہتھیار نہ ڈالیں بلکہ سامنے سے لڑیں اور انہیں شکست ہو جائے، ان حکمرانوں سے متعلق عربوں کا دستور یہ تھا کہ انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ جنگ میں قیدی بننے والی خواتین کو فوجیوں میں بانٹ دیا جاتا تھا جن میں سے بہترین عورتیں اعلیٰ جرنیلوں کے حصے میں آتی تھیں جبکہ شکست خوردہ خاندان سے تعلق رکھنے والی عورتوں کو قبضے میں لیے گئے سونے، قیمتی پتھروں اور دیگر خزانوں کے ساتھ خلیفہ کی خدمت میں روانہ کر دیا جاتا تھا۔

راجہ داہر کا کٹا ہوا سر خلیفہ الولید کو بھیج دیا گیا تھا۔ راج کماری کو دمشق بھیجا جانا تھا لیکن ایک عجب اتفاق ہوا کہ اس کی ملاقات کم سن محمد بن قاسم سے ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ جنگی قیدی تھی اور اس لحاظ سے اس کی حیثیت نہایت کمزور تھی مگر اپنی کمزور حیثیت سے بے پروا شہزادی ہار ماننے پر تیار نہیں ہوتی۔ حجاج بن یوسف جس نے اپنی مرضی کرتے ہوئے تجربہ کار جرنیلوں پر فوقیت دے کر محمد بن قاسم کو سندھ میں راجہ داہر کے خلاف حملے کی ذمہ داری سونپی تھی، انہیں راج کماری ناقابل مزاحمت محسوس ہوتی ہے۔

محمد بن قاسم اور راجکماری کے مابین ہونے والے مباحثے کے دوران راج کماری ان اخلاقی معیاروں سے متعلق گفتگو کر کے انہیں مرعوب کر لیتی ہے جن پر ہندوستانی معاشرہ استوار ہے۔ محمد بن قاسم شہزادی کی فکری بلوغت کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتا اور اسے احساس ہوتا ہے کہ زندگی سے متعلق عربوں کا نظریہ نسبتاً سادہ اور قدامت پسندی پر مبنی ہے۔

ناگزیر حالات میں اور نہ چاہتے ہوئے بھی محمد بن قاسم راج کماری کی جانب مائل ہوتا چلا جاتا ہے اور شہزادی کو فوراً اس کا احساس ہو جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بے نیاز کہ دونوں کی حیثیت میں زمین آسمان کا فرق ہے، شہزادی محمد بن قاسم کے ساتھ تعلق میں برتر مقام حاصل کر لیتی ہے اور اس صورت حال سے خاصی محظوظ ہوتی ہے۔

دونوں کے مابین فروغ پاتی محبت اور دونوں کی جانب سے فرار کی کوششوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ صفدر زیدی ایک بڑا کینوس دکھاتے ہیں جس میں عرب جرنیلوں، عرب قبیلوں اور خاندانوں کے مابین جاری اور اس وقت کے سندھ میں چلنے والی سازشوں کا بھی حال سنایا گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ سندھ کا حکمران ایک ہندو تھا مگر اس کی رعایا میں بہت سے لوگ بدھ مت کے ماننے والے تھے اور کئی جین بھی تھے۔ سندھ کی فتح مقامی لوگوں کی دھوکہ دہی اور روحانی برکات کے باعث ممکن ہوئی تھی۔

راج کماری اور محمد بن قاسم کے مابین تعلق دھیرے دھیرے محبت میں بدل گیا جو راج کماری کی جانب سے نفرت، شکوک و شبہات اور غیریقینیت جبکہ محمد بن قاسم کی جانب سے اس احساس کے ساتھ شروع ہوا تھا کہ شہزادی کو خلیفہ کے پاس بھجوایا جانا ہے۔ محمد بن قاسم اب اسے دمشق بھیجنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ ایک جعلی شہزادی کو وہ دمشق روانہ کر دیا جاتا ہے۔

اسی دوران محمد بن قاسم سے حسد کرنے والے عرب جرنیلوں کو معلوم ہو جاتا ہے کہ راج کماری اور محمد بن قاسم کے مابین کیا چل رہا ہے۔ دوسری جانب دمشق میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے۔ خلیفہ الولید کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس کا بھائی سلیمان اس کا جانشین بنتا ہے۔ خلیفہ سلیمان حجاج بن یوسف سے نفرت کرتا ہے جسے منصب سے ہٹا کر بے رحمی سے مار دیا جاتا ہے۔

راج کماری اور محمد بن قاسم کو اس خطرے کا احساس ہو جاتا ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہے۔ محمد بن قاسم کو ولی عہد شہزادی باور کرا چکی ہوتی ہے کہ عربوں کی فتوحات حاصل کرنے کی پالیسی غلط ہے۔ دونوں بھاگ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ ایسا کر سکیں، اس محل پر چھاپہ پڑ جاتا ہے جہاں دونوں محبت کرنے والے اکثر ملتے ہیں۔ محمد بن قاسم کو گرفتار کر لیا جاتا ہے لیکن راج کماری دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دیتی ہے اور سپاہی اسے تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہیں ناول کا اختتام ہو جاتا ہے۔

یہ بات قابل تعجب ہے کہ اس تاریخی رومانس کو لکھنے کے لیے مصنف کے پاس کتنا تاریخی ڈیٹا موجود تھا۔ سندھ پر حملے سے متعلق عرب یا سندھی تاریخ نویسوں نے بہت کم لکھا ہے۔ محمد بن قاسم کے فتح کردہ سندھ کی آٹھویں صدی کے اوائل کی کہانی سے متعلق سب سے اہم ذریعہ 'چچ نامہ' کو مانا جاتا ہے جسے تیرھویں صدی میں علی قلی نے اصل عربی متن سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ حالیہ وقتوں میں اس کتاب کے بھی معیار پر بعض لکھاریوں کی جانب سے سوال اٹھائے جا چکے ہیں جن کے مطابق برطانوی سرکار نے بھارت میں اسلام کی آمد سے متعلق اس کہانی کو اپنی مرضی کی تحریف کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان لکھاریوں کے دعوؤں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان میں اس سازشی نظریے کی جھلک ملتی ہے جو برطانوی نوآبادیاتی دور کی نفرت میں تیار ہوتے ہیں۔

ان حالات میں صفدر زیدی نے آٹھویں صدی کے عرب اور سندھی معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو پیش کرنے میں ذمہ داری سے کام لیا ہے۔ انہوں نے کسی ایک کلچر کو دوسرے سے برتر دکھانے کی کوئی کوشش نہیں کی، اگرچہ انہوں نے سندھی کلچر کے خدوخال پر نسبتاً زیادہ زور دیا ہے۔

ایسے پاکستانی قوم پرست جو عرب حملے کی سامراجی نوعیت سے انکار کرتے ہیں، جس میں لوٹ مار، تباہی و بربادی اور بہت زیادہ خونریزی شامل تھی، مصنف پر ضرور جزبز ہوئے ہوں گے، بالکل ان سندھی قوم پرستوں کی مانند جنہیں راج کماری کا محمد بن قاسم کی محبت میں گرفتار ہونا توہین آمیز محسوس ہو گا۔ تاہم صفدر زیدی ایک فاتح اور مفتوح کے مابین فروغ پانے والے محبت بھرے جذبات کی قابل اعتبار کہانی بیان کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

ولیم شیکسپیئر کا ڈرامہ 'انتھونی اور قلوپطرہ' بھی تاریخی رومانس پر مبنی ہے جس میں مصر کی ملکہ اور سلطنت روم کے ایک جرنیل کے مابین محبت کی المیہ داستان بیان کی گئی ہے۔ اس ڈرامے کی موجودگی میں راج کماری اور محمد بن قاسم کے مابین اسی سے ملتے جلتے جذبات پر مبنی کہانی کیوں کسی کے خیال میں نہیں آئے گی؟ درحقیقت صفدر زیدی کا ناول ایک ڈرامے کے سکرپٹ جیسا ہی محسوس ہوتا ہے اور اسے آسانی کے ساتھ سٹیج پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر اشتیاق احمد پروفیسر ہیں اور پاکستان کی تاریخ سے متعلق کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔