اردو فکشن کے دو بہترین ناول

اردو فکشن کے دو بہترین ناول
جمہوری ببلیکیشنز دبستان لاہور کا ایک معتبر کتابیں شائع کرنے والا ادارہ ہے۔ اسکے روح رواں فرخ سہیل گوئندی ایک جہاں گرد ہیں انکے زیر اہتمام دو ناول شائع ہوئے ہیں۔ ایک پاکستانی خالد فتح محمد کا 'وقت کی باگ' اور دوسرا 'ترک ادب کا ایک ترک باغ کی کہانی' جسے شبنم الیشی گوزیل نے لکھا جبکہ اسے اردو قالب میں ظفر اللہ نے ڈھالا ہے۔

پہلے پاکستانی ادب کی بات کرتے ہیں ،خالد فتح محمد اس عہد کے بڑے فکشن لکھنے والوں میں سے ایک ہیں۔ پچھلے 20 سالوں میں جس قدر انہوں نے لکھا ہے شاہد ہی کسی پاکستانی ادیب نے لکھا ہو۔ وہ مسلسل لکھ رہے ہیں، ان کا قم اپنی تخلیق کے عروج پر ہے وہ مسلسل سماجی سچ کو جرات اور بہادری سے بیان کر رہے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فکشن سے کہانی کو ختم نہیں ہونے دیا وہ علامت نگاری، جملے بازی اور منظر نگاری کے ساتھ ساتھ کہانی کا بہاؤ بہاتے ہیں جس کے باعث قاری اور ناقدین دونوں انکے فکشن کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں۔

ان کا نیا ناول 'وقت کی باگ' ہمارے سماج کا ایک تلخ سچ ہے جو کہ ایک فوجی آمر کی کہانی ہے۔ جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی کا ایک ایسا بیج بویا جو آج ایک خون آشام درخت بن چکا ہے اور ہمارا خون چوس رہا ہے۔ فوجی آمر اپنے اقتدار کو کیسے چلاتا تھا خفیہ اداروں کو کیسے متحرک رکھتا تھا اور اداروں کی نگرانی کے کیسے محکمے اور حربے بناتا تھا۔ 'وقت کی باگ' میں یہ سب کچھ ہے۔

اس ملک میں جب آمریت کی طویل رات مسلط تھی تو ایسے میں کچھ لوگ تھے جو جہدوجہد کر رہے تھے۔ ملک میں جمہوریت کی بالا دستی کی جنگ لڑ رہے تھے اور سماج کو ایک روشن خیال مذہبی رواداری کی طرف لے جانے کی جستجو میں لگے ہوئے تھے۔ اس عہد کے ادیب، حلقہ اربابِ ذوق میں فوجی حکومت کے خلاف کیسے اپنا کردار ادا کر رہے تھے، ترقی پسند قوتیں کیسے اپنا پرچم تھام کر مزاحمت کر رہی تھیں۔

'وقت کی باگ' ایک مزاحمتی تحریر ہے جکہب فوجی آمر کے محل میں ایک پریم کہانی بھی چل رہی ہوتی ہے ،اور کیسے ایک ایک نوجوان فوجی آفیسر کی مجوبہ جس کا باپ بھی ایک فوجی آفیسر ہے وہ اس فوجی حکمران کے خلاف اپنی نفرت کو بیان کرتی ہے۔ فوجی امر کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی ایک تقریر کا بہت چرچا کیا جاتا ہے یہ تقریر کیسے کامیاب ہوئی، اسکے پچھے کیا کہانی تھی اس اس ناول میں بیان کیا گیا ہے۔ خالد فتح محمد چونکہ خود سابقہ عسکری ہیں لہذا ان سے بہتر اس ادارے کی نفسیات کون جانتا ہو گا۔ دختر انگور بھی آمریت کی سیاہ رات میں مزاحمت کا کردار خوب ادا کرتی نظر آتی ہے۔ آخر میں جب کہانی ختم ہوتی ہے تو ایک غلام ملک کا نوحہ بیان کیا گیا ہے کیسے انکل سام ہمارے ملکوں میں حکومتیں بنانے اور بدلنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

ترک سماج کے بارے میں لکھنا اور پڑھنا اب وطن عزیز میں کافی عام ہو چکا ہے۔ ناول 'پیوستہ رہ شجر سے' ایک ترک باغ کی کہانی کو اردو کے قالب میں ظفر اللہ نے ڈھالا ہے اور خوب مہارت سے ڈھالا ہے۔ کسی بھی فکشن کو جب آپ دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا کہ کہانی کی روح نہ متاثر ہو وہ کہانی اسی ملک اور ثفافت کی لگے جہاں اصل زبان میں لکھی گئی ہے۔ ظفر اللہ یہ فن خوب جانتے ہیں۔ مسعود اشعر مرحوم جیسے صاحب طرز ادیب ظفر اللہ کو سند با کمال ترجمہ نگار قرار دے چکے ہیں۔ شبنم الیشی گوزیل ایک ترقی پسند ترک فکشن لکھنے والی ہیں۔ ناول کی کہانی استنبول کے ایک پارک کی ہے جو شہر کے خوبصورت علاقے میں ہے۔ جب ان درختوں کو کاٹ کر فوجی بیرکوں کو بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو مقامی خواتین نے مزاحمت کی اور ان درختوں سے لپٹ گئی جن کی چھاؤں میں پل کر جوان ہوئی تھیں۔ یہ ناول جدید جدید ترکی کی کہانی جو عورت مزاحمت اور آزادی کا تصور بیان کرتا ہے۔ شبنم پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں اور اپنی کہانی میں صحافت اور فکشن کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔