ادیبوں اور دانشوروں کے فکشن نگار سمیع آہوجہ ہمیشہ زندہ رہیں گے

ادیبوں اور دانشوروں کے فکشن نگار سمیع آہوجہ ہمیشہ زندہ رہیں گے
گمشدگی کا اشتہار، بجھارتیں نگار خانوں کی، ناردرن کمانڈ، زندانِ گرد باد، ننانوے کے پھیر میں؛ افسانوں کی ان کتابوں کو اگر آپ کسی بک ریک میں دیکھیں تو آپ کے ذہن میں ایک ہی نام آتا ہے؛ سمیع آہوجہ۔ ایک باکمال افسانہ نگار جنہیں علم کا دروازہ کہا جا سکتا ہے۔ شہر علم کا دروازہ کھولنے کے لیے سمیع صاحب کے فکشن کا مطالعہ ضروری ہے اور ان کی بات کو سمجھنے کے لیے مزید مطالعہ ضروری ہے۔ سمیع آہوجہ کا فکشن ہرگز آسان نہیں ہے۔ علامت نگاری، تاریخ، فلسفہ؛ ان سب کو پڑھنے والا ہی ان کے فکشن کی گہرائیوں تک جا سکتا ہے۔

ایک بار عظیم گائیک محمد رفیع سے بی بی سی پر انٹرویو کے دوران صحافی نے پوچھا؛ رفیع صاحب دنیا آپ کو سنتی ہے آپ کس کو سنتے ہیں تو رفیع صاحب نے بے ساختہ جواب دیا؛ مناڈے کو، کیونکہ ہم عام آدمی لے لئے گاتے ہیں جبکہ مناڈے صاحب ہمارے لیے گاتے ہیں۔ یہی صورت حال سمیع صاحب کی تھی۔ وہ دانشوروں اور ادیبوں کے لیے لکھتے تھے۔ ان کا فکشن عام آدمی کے لیے نہیں تھا۔ یہ راستہ انہوں نے خود اختیار کیا تھا۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ قارئین میں کمی ہو جاتی ہے۔ آپ بیسٹ سلیر ادبب نہیں بن سکتے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فکشن کی تاریخ آپ کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہوتی ہے۔

سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اردو فکشن اور افسانے کو جس بلندی پر لے گئے ان سے بعد میں آنے والوں انتظار حسین، مسعود اشعر، انور سجاد اور سمیع آہوجہ نے ان کی نا صرف لاج رکھی بلکہ عالمی سطح کا فکشن تخلیق کیا۔ یہ بات الگ ہے کہ وطن عزیز میں ادب کے نام پر قائم اداروں نے ہماری قومی اور صوبائی زبانوں کی عالمی سطح پر ترویج نہیں کی۔

سمیع آہوجہ صاحب سے پاک ٹی ہاؤس میں بے شمار ملاقاتیں رہیں۔ ہمیشہ وہ اپنی بیٹی ارسہ جی کے ساتھ آتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ارسہ جی ان کی لاٹھی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ سمیع صاحب کی کوئی اور اولاد ہے کہ نہیں مگر ہمارے لیے تو ارسہ جی ان کی یادوں کا تسلسل ہیں۔ ایک بار پاک ٹی ہاؤس میں ایک اجلاس کی صدرات سمیع آہوجہ کر رہے تھے، بحث مارکسزم پر چل رہی تھی کہ ایک صاحب جن کو اجلاس میں بار بار بات کرنے کی عادت تھی سمیع صاحب نے ان کو ٹوک دیا اور کہا؛ آپ میرے نکتے کو نہیں سمجھ رہے۔ پھر وہ رشید مصباح سے مخاطب ہوئے اور کہا؛ رشید مصباح اس اجلاس میں صرف تم مارکسزم پر ٹھیک بات کر سکتے ہو، تم اس بحث کو ختم کرو۔ یہ ایک صاحب علم ادیب کا دوسرے صاحب علم مصنف کو خراج تحسین تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ دونوں کا انتقال ماہ جولائی میں ہی ہوا 3 سالوں کے اندر۔ یوں ماہ جولائی ترقی پسندوں کے لیے خاصا ستم گر تابت ہوا۔

یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے کہ میں نے ان کی کتاب ناردرن کمانڈ کی تقریب رونمائی کے موقع پر ان کی موجودگی میں مضمون پڑھا تھا جو انہوں نے پسند کیا تھا۔ اس مضمون کا اختتام میں فکشن کے بہت بڑے نام خالد فتح محمد کے جملے سے کرتا ہوں جو انہوں نے فیس بک پر سمیع آہوجہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے؛ سمیع آہوجہ جتنے اہم ادیب تھے اتنے بڑے انسان بھی تھے۔

بڑا انسان کہنا متنازع بھی ہو سکتا ہے لیکن سمیع آہوجہ ان چند ادیبوں میں سے تھے جن کے کردار اور تحریر میں تضاد نہیں تھا۔ وہ سماجی اور تہذیبی الجھاؤ کو تاریخی تناظر میں نا صرف دیکھتے بلکہ اس کے درد کو بھی محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے اس درد کی شدت کو ہمارے سامنے پیش کیا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔