پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کیوں ناکام ہے؟

پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کیوں ناکام ہے؟
منگل کی شام نیا دور کے ویب براڈکاسٹ میں پاکستان کی مزدور تحریک اور بائیں بازو کی سیاست پر مفصل گفتگو کی گئی۔ کل کی براڈکاسٹ میں حقوق خلق موومنٹ سے ڈاکٹر عمار علی جان، لیبر ایجوکیشن فاونڈیشن سے جلوت علی اور لیبر قومی موومنٹ سے ملک اسلم معراج نے بطور مہمان شرکت کی۔ جبکہ میزبانی کے فرائض زیاد فیصل نے ادا کیے۔

پروگرام کے آغاز میں زیاد نے سامعین کو بتایا کہ پاکستان میں سیاسی کشمکش اور جماعتوں کے درمیان معاملات کی خبریں تو روز ہی سننے کو ملتی ہیں مگر پاکستان کے مزدور طبقے اور ُانکے حالات بارے خبریں ہماری اخباروں اور ٹی وی سکرینوں کی زینت نہیں بن پاتیں۔ زیاد نے حال ہی میں فیصل آباد کے اندر ابراہیم فائبرز کے مزدوروں کی جبری برطرفیوں کے خلاف احتجاج اور اسکے نتیجے میں ہونے والے پولیس تشدد کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خبر کسی اخبار یا ٹی وی چینل پر نہیں چلے گی۔ اسلم معراج سےسوال پوچھتے ہوئے زیاد نے کہا کہ کیوں پاکستان کا مزدور طبقہ اکثریت میں ہونے کے باوجود بنیادی حقوق کا مستحق نہیں ہے اور کیوں مزدور طبقہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے متحد نہیں ہو پا رہا؟

اسلم معراج نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ اس وقت ملک میں موجود مہنگائی، بیروزگاری اور مزدوروں کی ُاجرتوں کا مہنگائی کے تناسب سےنہ بڑھنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام نا انصافیاں مزدور طبقے کے منظم اور متحرک ہونے میں رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ اسلم معراج نے کہا کہ ٹھیکیداری نظام کے آنے کی وجہ سے مزدور طبقہ نہ صرف مذید استحصال کا شکار ہورہا ہے بلکہ اس نظام نے میں وہ مذید بکھر بھی رہا ہے۔ یاد رہےکہ ٹھیکیداری نظام میں مزدور کو سوشل سیکیورٹی اور کم سے کم ُاجرت جیسی سہولیات میسر نہیں ہو پاتیں۔

ُان کا مذید کہنا تھا کہ ہر قومی و صوبائی بجٹ میں 8 گھنٹے روزانہ کام کرنے کی کم از کم اجرت طے کی جاتی ہے جو پاکستان میں اوسطاً 17500 ماہانہ ہے جبکہ ہوشرباء مہنگائی کے سبب مزدور رہنماوں نے وزیراعظم سے اپیل کی تھی کہ اسے بڑھا کر کم از کم 30000 کیا جائے۔ ایسا کرنا تو درکنار 17500 جو کہ کم از کم اجرت ہے وہ بھی موجودہ حالات میں مزدوروں کو نہیں مل رہی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کی طرف سے دیگر قوانین کے اطلاق کی بات کی جاتی ہے مگر یہاں کا ہر چھوٹا بڑا تاجر اور سرمایہ دار مزدوروں کے حقوق پر مشتمل ان قوانین کی سخت پامالی کرتا ہے۔

مک اسلم معراج کا مذید کہنا تھا کہ کیونکہ کم اجرت کی وجہ سے مزدور اپنے گھر کا پہیہ نہیں چلا پا رہا لہٰذا اسے سارا دن کام کرنا پڑتاہے جسکی وجہ سے وہ مزدوروں اور ٹریڈ یونینز کے ساتھ نہیں ُجڑ پاتا۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک میں انجمن سازی کرنا ہر مزدور کا آئینی حق ہے مگر اس کے باوجود مزدوروں کو فیکٹریوں میں یونین سازی نہیں کرنے دی جا رہی۔

زیاد فیصل نے جلوت علی سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ ان کے خیال میں مزدور تحریک کا حصہ بننے میں خواتین کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

جلوت علی نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر صنفی نابرابری کی وجہ سے خواتین کی زندگی کہ ہر معاملے میں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ مزدور اورٹریڈ یونینز کا خواتین کی طرف رویہ بھی خواتین کی مزدور تحریک میں شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عورت پر سب سے پہلے پابندیاں بھائی، بیٹا اور باپ لگاتا ہے، اسکے بعد شوہر کی وجہ سے بھی خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں شرکت نہیں کر پاتیں۔

جلوت کاکہنا تھا کہ اول تو فیکٹریوں میں یونینز موجود ہی نہیں ہیں اور جہاں ہیں بھی وہاں پر خواتین کو شرکت کی اجازت نہیں ہے کیونکہ فیکٹری مالکان، مزدوروں اور گھر والوں تک سب عورت سے صرف محنت مزدوری کروانا چاہتے ہیں نہ کہ یہ کہ عورت اپنے حقوق کے لیے آواز ُاٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح مرد مزدور رہنما دن رات مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں خواتین چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتیں کیونکہ انہیں ہر چھوٹی چھوٹی بات کی والد یا خاوند سے اجازت لینا پڑتی ہے۔

عمار علی جان سے زیاد فیصل نے سوال پوچھا کہ بایاں بازو کس طرح مزدور تحریک کو دوبارہ سے منظم ہونے میں مدد دے سکتا ہے اور کیوں ماضی میں بائیں بازو کی قوتیں پاکستان کے مزدور طبقے کا اعتماد حاصل نہیں کر سکیں؟

عمار علی جان نے کہا کہ گزشتہ تیس سے چالیس سالوں کے اندر پاکستان میں یونین سازی نہ ہونے کہ برابر رہی ہے اور اس وقت صرف 1 فی صد کے قریب مزدور ایسے ہیں جو کسی یونین کا حصہ ہیں، اسی لیے بایاں بازو مزدور تحریک کے ساتھ نہیں ُجڑ پایا۔ ُان کا کہنا تھا کہ مزدور تحریک اور عوام سے کٹ کر بننے والے ترقی پسند نظریات ایک خاص نقطے کے بعد محض علمیانہ باتیں رہ جاتی ہیں اور مزدور تحریک کی عدم موجودگی میں بائیں بازو کے لوگ آپس میں مختلف فلسفوں پر نہ صرف بحث کرتے ہیں بلکہ انکی زیادہ تر لڑائیاں بھی انہیں فلسفوں کے ارد گرد گھومتی ہیں جن سے مزدور طبقے یا عام عوام کو کوئی دلچسبی نہیں ہوتی۔

عمار علی جان کا کہنا تھا مگر گزشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں ایسی تحریکیں سامنے آئی ہیں جو ایک نئی ترقی پسند سوچ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ابھرنے والی طلبہ، خواتین اور مزدور تحریکوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان تحریکوں کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ عوامی تحریکیں ہیں اور فی الوقت اپنے ابتدائی سفر میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان تحریکوں کی مثبت اور مشترک بات یہ ہے کہ یہ تمام تحریکیں لوگوں کے ٹھوس مسائل اور مطالبات لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔ عمار نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں مزدور دوبارہ سے اپنے مطالبات لے کر متحد اور منظم ہو رہے ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔

پروگرام کے اختتام پر زیاد فیصل کا کہنا تھا کہ مزدوروں کے حقوق، متبادل سیاسی بیانیے اور مزدور تحریک کی اس گفتگو کو ہم نیا دور کے پلیٹ فارم سے جاری رکھیں گے۔