(وقار گیلانی)
زارا نازکی اسلام آباد میں ایک دکان ہے جہاں موبائل فونز کی خریدوفروخت اور مرمت کی جاتی ہے ۔ خواجہ سرا دکھائی دینے والی ایک پنتیس سالہ عورت کا پاکستان میں ایک چھوٹا بزنس چلانا کسی معجزے سے کم نہیں۔ پیدائش کے وقت زارا کا نام محمد آصف تھا، اور وہ راولپنڈی کے ایک محنت کش خاندان میں پیدا ہوئی۔ سکول کی تعلیم مکمل کرکے کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی۔ سکول میں اُس کا نام آصف تھا۔ اُس کے پانچ بھائی اور ایک بہن تھے ۔ تاہم وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکی۔ لیکن تعلیم چھوڑنا اُس کی مرضی نہیں، مجبوری تھی ۔ اُس کا کہنا ہے، ’’سکول کے لڑکے مجھے تنگ کرنے لگے تھے کیونکہ میری آواز نسوانی تھی ۔ میری سینے کے ابھار بھی نمایاں ہوتے جارہے تھے ۔ میرے بھائی میرا دفاع کرنے کے لیے اُن لڑکوں سے لڑتے۔ ایک روز میرے بڑے بھائی کی میری وجہ سے بہت سنگین لڑائی ہوگئی۔ اس کی وجہ سے میرا سکول جانا بند ہوگیا۔ ‘‘ زارا کی انٹی اُسے راولپنڈی لے گئی، جہاں اُس کی دوستی ایک اور خواجہ سرا، فوزیہ سے ہوگئی ۔ بعد میں اُس نے ایک رقص پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور فنکشنز میں پیشہ ورانہ طور پر رقص کرنے لگی۔ زارا نے پہلی مرتبہ سترہ سال کی عمر میں ایک بسنت پارٹی میں رقص کیا۔ چند سالوں کے بعد زارا نے رقص چھوڑ دیا اور ایک شراکت دار کے ساتھ مل کر چھوٹا سا کاروبار کرنے لگی ۔ آج پندر ہ سال بعد وہ اسلام آباد کی ایک مصروف مارکیٹ میں موبائل فون کی خریدوفروخت اور مرمت کی دکا ن چلارہی ہے ۔
زارا دیکھتی ہے کہ اس کی کمیونٹی کو پاکستان میں ترقی کرنے کے لیے بہت کم معاونت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے ، ’’ ہم چاہتی ہیں کہ ہمیں کوئی عجیب مخلوق نہیں بلکہ انسان سمجھا جائے ۔ ہم بھی خدا کی مخلوق ہیں۔ ہمیں بھی ہماری والدہ نے جنم دیا ہے ، بالکل جیسے دیگرافراد کو۔ ‘‘ وہ ایک ایسے معاشرے میں رہنا چاہتی ہے جو خواجہ سراؤں کو دھتکارنے کی بجائے اُنہیں سمجھے۔ اُنہیں مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہوں۔ ’’آج مجھے فخر ہے کہ میں اپنی والدہ اور چھوٹے بھائی کی کفالت کررہی ہوں۔ وہ مجھ سے اور میرے پیشے سے خوش ہیں۔‘‘
زیادہ تر خواجہ سراؤں کے لیے تشدد روز مرہ کی زندگی کی ایک حقیقت ہے
پاکستانی معاشرے میں ستم زدہ خواجہ سراؤں میں زارا کا کیس منفرد ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے عزت کی زندگی کے لیے جدوجہد کی اور کامیاب ہوگئی۔ پاکستان میں خواجہ سراانتہا ئی تشد د اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔ اُنہیں جسمانی تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اُنہیں قدم قدم پر ہراساں کیا جاتا ہے ۔ سماجی بے حسی، انتہا پسندی اور ریاستی تحفظ کی وجہ سے زیادہ تر خواجہ سرا زندگی گزارنے کے لیے جنسی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جولی، شلپا اور نومی فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی تین خواجہ سرا عورتیں تشدد کا نشانہ بننے کے بعد اسلام آباد چلی آئیں۔ ان میں سے دو کو فیصل آباد میں اُن کے گھر میں گھس کر دو آدمیوں نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ۔ جولی نے’’ نیا دور‘‘ کو بتایا ...’’ہم کچھ افراد کی دھمکیوں کے ڈر سے اسلام آباد آگئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے اپنے حملہ آوروں کے خلاف کیس کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب ہم اسلام آباد میں کام کی تلاش میں ہیں۔ اس وقت ہم شادی اور دیگر تقریبات میں ناچ کر روزی کماتی ہیں۔ جولی نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ فیصل اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشد دمیں اضافہ ہوچکا ہے ۔ جنسی بنیادوں پر بننے والے اقلیتیں پاکستان میں غیر محفوظ ہیں۔ لیکن خواجہ سراؤں کی صورتِ حال یہ ہے کہ اُن پرجنسی حملوں کو ریپ نہیں بلکہ غیر فطری فعل قرار دیا جاتا ہے ۔ خواجہ سرا شہری حقوق سے محروم شہری ہیں۔ پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے مطابق ملک میں 10,418 خواجہ سرا ہیں۔ تاہم اُن کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکن سرکاری اعدادوشمار سے اتفاق نہیں کرتے ۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ خواجہ سراؤں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ستمبر 2012ء میں نے رولنگ دی کہ خواجہ سراؤں کوبھی دوسرے شہریوں کی طرح وہی حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے ۔ عدالت نے خاندانی وراثت میں حصے اور شناختی کارڈ حاصل کرنے کے حق کو بھی تسلیم کیا۔ قومی شناختی کارڈ میں خواجہ سراؤں کے لیے تیسری صنف کی کیٹگری شامل کردی گئی ہے۔ تاہم مساوی حقوق رکھنے والے قابلِ قبول شہریوں کا درجہ پانے کیے اُن کی جدوجہد ابھی جاری ہے ۔ 2016پشاور میں ایک خواجہ سراعورت کو گولی ماردی گئی ۔ جب اُسے شدید زخمی حالت میں اہسپتال میں لے جایا گیا تو اہسپتال انتظامیہ کافی دیر تک شش وپنچ کا شکار رہی کہ کیا اُسے مردانہ وارڈ میں رکھا جائے یا زنانہ وارڈ میں۔ گزشتہ سال اگست میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے پارلیمنٹ میں دو بل پیش کیے گئے ۔ اُن میں سے ایک خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تھا، اور دوسرا ایک ترمیمی بل تھا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی سینٹر ثمینہ سعید ، جو سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور ایک ذیلی کمیٹی کی رکن ہیں، کا کہنا تھا ،’’خواجہ سراؤں کے لیے قانون میں ترمیم کر کے اسے بہتر شکل دی گئی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ سینٹ جلد ہی اس بل کو منظور کرلے گا۔‘‘ تاہم خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو شک ہے کہ حکام اس کوشش میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے ۔ بندیا رانا، جو Gender Interactive Alliance کی بانی ہیں، نے خواجہ سراؤں کے لیے مالی امداد اور ملازمتوں میں حصے کے لیے 2010 ء میں عدالت میں درخواست دائر کی تھی ۔ اس کا کہنا ہے...’’حکومتیں سپریم کورٹ کی سابق رولنگ پر عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہمارا مسلۂ یہ ہے کہ ریاست ہمارے حقوق کے لیے سنجیدہ نہیں ۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت صرف اپنے سیاسی فائدے کے لیے قانون سازی کررہی ہے ،لیکن عملی طور پر ہمیں ہمارے حقوق نہیں مل رہے ۔ ‘‘ زارا، بندیا اور بہت سی دیگر خواجہ سراؤں کو امید ہے کہ سماجی اور معاشی ہم آہنگی سے اُن کی حالت بہتر ہوسکتی ہے ، اور وہ بھی عزت اور وقار کے ساتھ جی سکتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ حکومت اپنی کوششیں تیز کرے ۔ اس سے بھی اہم یہ کہ پاکستان کے باخبر اور باشعور شہریوں کو سماجی طور پر دھتکاری گئی اس کمیونٹی کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔