غزہ کے حق میں عرب ملکوں میں احتجاجی مظاہرے کب ہوں گے؟

عرب عوام کے دل تو اگرچہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں لیکن عرب حکومتیں ہمیشہ استعماری قوتوں کی آلہ کار رہی ہیں۔ یہاں بادشاہتوں کے خاتمے کے ساتھ ہی اقتدار پر فوجی آمروں نے قبضہ کر لیا اور خطے میں بڑی طاقتوں کے 'پٹھوں' کا کردار ادا کرنے لگے۔

غزہ کے حق میں عرب ملکوں میں احتجاجی مظاہرے کب ہوں گے؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور پھر قوی اُمید تھی کہ تمام تنازعات کا حل پُرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت نکالا جائے گا، دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی اور جنگ کے بادل ہمیشہ کے لیے چھٹ جائیں گے۔ لیکن اقوام متحدہ بھی انجمن اقوام یعنی لیگ آف نیشنز کی طرح کئی تنازعات کے پُرامن حل میں ناکام دکھائی دی۔

مسئلہ فلسطین بھی دنیا کے چند پرانے حل طلب تنازعات میں شامل ہے۔ یقیناً دہشت گردی کی تمام اقسام اور اشکال اور تشدد کے ذریعے بین الاقوامی تنازعات کا حل نکالنا ایک قابل قبول حل نہیں ہے۔ یہ پُرتشدد یا دہشت گردانہ اقدامات کسی گروہ یا تنظیم کی جانب سے ہی کیوں نہ ہوں، اقوام متحدہ اور عالمی قوانین اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاستی دہشت گردی، نسل کشی اور بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا بھی اقوام متحدہ، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی شدید خلاف ورزیوں میں شامل ہیں۔

مسئلہ فلسطین دنیا کے چند پرانے تنازعات میں شامل ہے۔ 1948، پھر 1967 اور پھر 1979 کی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے اپنی جغرافیائی سرحدوں میں کئی گناہ اضافہ کر لیا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر کے ساتھ تو اسرائیل کے تعلقات معمول پر آ گئے اور اسرائیل نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں قبضے میں لیے گئے مصر کے تمام علاقے واپس کر دیے۔ اس کے جواب میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ پھر اُردن اور کئی دیگر عرب ممالک نے بھی یکے بعد دیگرے اسرائیل کو تسلیم کر لیا لیکن مسئلہ فلسطین کا حل پھر بھی نہ نکل سکا۔

یقیناً مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عالمی برادری کو سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے 'دو ریاستی فارمولہ' ایک دفعہ پھر زیر بحث آ رہا ہے۔ دوسری جانب افسوس در افسوس کہ فلسطین میں ظلم و ستم پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی بے حسی بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔

یقیناً عرب ممالک کے عوام کے دل تو مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ عرب حکومتیں ہمیشہ استعماری قوتوں کی آلہ کار بنی رہی ہیں۔ عرب ممالک میں بادشاہتوں کے خاتمے کے ساتھ ہی فوجی آمروں نے حکومتیں سنبھال لیں جنہوں نے دراصل خطے میں بڑی طاقتوں کے 'پٹھوں' کا کردار ادا کیا۔ بیش تر عرب ممالک میں جمہوریت کا سورج ابھی تک طلوع نہیں ہو سکا۔ کئی عرب ممالک معاہدہ ابراہیمی سے پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے اور کئی اہم عرب ممالک ابراہام اکارڈ کے بعد مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کے خواہش مند تھے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے چند بڑے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان گفت و شیند کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ یاد رہے گفت و شنید کا یہ سلسلہ گذشتہ کئی دہائیوں سے خفیہ مذاکرات کے ذریعے جاری تھا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لئے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

سیاسی مبصرین کے مطابق عرب ریاستوں کا یہ رویہ دراصل قومی ریاستوں یا نیشن سٹیٹس کے فطری رویے کا ہی عکاس ہے جہاں جدید قومی ریاستیں اپنے قومی مفادات کے تحت ہی فیصلے کرتی ہیں لہٰذا مفکرین ایران کے اسرائیل پر حملے کو قومی ریاست کا اپنی آزادی و خود مختاری کے تحفظ کے لیے ایک قدم سمجھتے ہیں اور اسے مسئلہ فلسطین کے تناظر میں نہیں دیکھتے۔ خطے کے دیگر ممالک بھی ایران کی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کو ایران اور اسرائیل کے باہمی تنازع کے طور پر ہی دیکھتے ہیں کیونکہ غزہ پر اسرائیل کی شدید بمباری کے باوجود ایران نے خطے کے دوسرے ممالک کی طرح محض زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا کیا تھا۔

دوسری جانب بعض مغربی سیاسی مبصرین ایران کی جانب سے غیر ریاستی عناصر کی پشت پناہی کو خطے میں مزید عدم استحکام سے تعبیر کرتے ہیں جس کی واضح مثال غزہ میں 40 ہزار سے زائد معصوم و مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ہے جس کی انسانی تاریخ میں کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں گذشتہ کئی ہفتوں سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے لیکن عرب ممالک میں عرب حکومتوں اور عوام کی سوچ اور خواہشات میں واضح تضاد دکھائی دیتا ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مزید پینگیں بڑھانے سے پہلے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سنجیدہ کوششوں کا حصہ بن جائیں۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن ان دنوں مشرق وسطیٰ کے اہم دورے پر ہیں اور ایک دفعہ پھر ' دو ریاستی حل' پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب دو ریاستی حل کے لیے سب سے پہلے تمام مسلح فلسطینی گروہوں میں بھی اتفاق رائے کا ہونا لازمی ہے۔ یاد رہے کہ 'اوسلو معاہدہ' پر بھی کئی مسلح فلسطینی گروہوں کو شدید تحفظات تھے لہٰذا دو ریاستی حل کی جانب بڑھنے سے پہلے تمام فلسطینی متحارب گروہوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے بعد تمام عرب ممالک بھی مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے آپس میں مکمل اتفاق رائے پیدا کریں تا کہ نئی فلسطینی ریاست کے لیے سرحدوں کا تعین کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کا فوری اجلاس بلایا جائے تا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔

دو ریاستی حل کے لیے عرب ممالک نیز امریکہ اور کئی یورپ ممالک میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن نئی آزاد فلسیطنی ریاست کی جغرافیائی حدود کے تعین کے لیے شاید ابھی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے فوری اقدامات کرے تا کہ غزہ میں خون ریزی کے سلسلے کو فوری طور پر روکا جا سکے۔ نیز عالمی برادری اور اقوام متحدہ غزہ میں عذائی قلت سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ہنگامی اقدامات کرے تا کہ ممکنہ قحط کی صورت حال سے غزہ کے لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔