نواز شریف صاحب سنا ہے آج دوپہر لندن جا رہے ہیں۔ طبیعت ان کی بے انتہا خراب ہے، اور ڈاکٹرز اور پارٹی ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم اس وقت حقیقتاً زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے پلیٹلٹس کسی صورت دوبارہ بننا شروع نہیں ہو رہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق ان کے جسم میں اس وقت بھی اتنے پلیٹلٹس نہیں ہیں کہ وہ سفر پر روانہ ہو سکیں۔ پارٹی کے رہنما سرگوشیوں میں کہتے ہیں، انہیں زہر دیا گیا ہے۔ مخالفین بھی پریشان ہیں کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید صاحب تک کی زبان میٹھی ہو چکی ہے۔
لیکن اس موقع پر تین طرح کے لوگوں کی حالت سب سے زیادہ غیر ہے۔ پریشان انصافی، ناکام صحافی اور جذباتی پٹواری۔
سب سے پہلے ان کا ذکر جو سب سے کم مشکل میں ہیں۔ یعنی پریشان انصافی۔ ان بیچاروں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کہنا کیا ہے۔ کبھی خان پر غصہ ہوتے ہیں کہ این آر او کیوں دیا، لیکن پھر خود کو تسلی دے لیتے ہیں کہ خان نے تھوڑی دیا ہے، جن کی حکومت ہے انہوں نے دیا ہے۔ پھر یہ سوچ کر اور دل بھر آتا ہے کہ ہماری حکومت ہوتے ہوئے بھی ہماری حکومت نہیں۔ اور پھر اس غم سے چلّا اٹھتے ہیں کہ ہم نے تو تمہیں اٹھ کھڑا ہونے کے لئے ووٹ دیا تھا، تم کیوں اسٹیبلشمنٹ کے آگے لیٹ گئے؟
کوئی دوسرا آ کر تسلی دیتا ہے کہ بھائی کوئی بات نہیں اگر نہیں کھڑے ہو رہے تو، لیکن اگر این آر او پاس نہیں ہے تو کم از کم یہ کہنا بند کر دیں کہ این آر او نہیں دوں گا۔ بات تقریروں میں شائستہ لب و لہجہ اختیار کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی سویلین سپریمیسی کا تصور بس اتنا ہی ہے کہ سویلین ہر حال میں خوش رہیں، ’ہائی‘ رہیں۔
دوسرے نمبر پر آتے ہیں وہ صحافی جن کو ہمیشہ ڈیل کی خبر سب سے پہلے مل جاتی ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ایک ایسا چینل جس پر نوکری کا کرائیٹیریا ہی یہ ہو کہ مسلم لیگ ن کے خلاف بولنا ہوگا، اس کے پاس مسلم لیگ ن کے اندر کی خبر کہاں سے آ جاتی ہے؟ ان سے کوئی لیگی بات کرنا پسند کیوں کرے گا؟ کچھ ایسے صحافی بھی ہیں جن کی بطور ایڈیٹر اس صدی کے اوائل میں ایک خبر درست ثابت ہو گئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، باہر بیٹھے جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں۔ اب بھی انہی کے پاس ڈیل کی خبریں ہیں۔ حیرت ہے کہ آج بھی لوگ انہیں credible صحافی سمجھتے ہیں۔ آ جاتی ہے بھئی خبر۔ لگ جاتا ہے تکا۔ اور انہوں نے تو صرف خبر چلائی تھی۔ پتہ نہیں وہ بھی کسی کے کہنے پر چلائی اور trap ہو گئے یا کیا ہوا۔ بہرحال، ان کی صحافت اب ایسی ہی بے پر کی اڑانے پر منحصر ہے۔ اڑا لینے دو۔
آخر میں آتا ہے سب سے زیادہ پریشان طبقہ جسے سمجھانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ہیں جذباتی پٹواری۔ یہ عجیب و غریب نسل ہے۔ اس کے خیال میں مسلم لیگ ن میں کوئی کھل کر نہیں بولا وگرنہ آج حالات مختلف ہوتے۔ انہیں کسی صورت یقین نہیں آ رہا کہ ایک 70 سال کا آدمی بیمار بھی ہو سکتا ہے۔ شکی القلبی کا یہ عالم ہے کہ نہ ذاتی معالج کی مان رہے ہیں، نہ حکومتی وزرا کی سننے کو تیار ہیں، نہ ڈاکٹروں کی، نہ ججوں کی۔ بس ایک ضد ہے، ڈیل ہی کرنی تھی تو ہمیں کیوں لڑوایا۔۔۔۔
ڈیڑھ سال جیل میں رہنا ان کے نزدیک لڑائی نہیں، ان کی ٹوئیٹیں ہی ساری جنگ ہیں۔ پارٹی کا لیڈر پارٹی کی قانونی طور پر سربراہی سے محروم ہے، جیل میں ہے، بیوی مر گئی، بیٹی بھی جیل میں ہے، وہ بیوی اس بیٹی کی ماں بھی تھی، ایک اور سابق وزیر اعظم جیل میں ہے، سابق وزیر جس نے ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا، جیل میں قید ہے، سابق وزیرِ قانون پر پھانسی کا مقدمہ بنا رکھا ہے، اور ایک ایسے کیس میں کہ جس کے جعلی ہونے میں کسی انصافی کو بھی شک نہیں۔ حمزہ شہباز 9 سال مشرف کا یرغمالی بنا رہا، پچھلے کئی ماہ سے جیل میں ہے۔ مگر یہ کہتے ہیں کھل کے نہیں بول رہے۔
اصل میں نسیم حجازی کے ناول پڑھ پڑھ کر یہ قوم پاگل ہو چکی ہے۔ سیاسی ورکر ان میں سے کبھی کوئی نہیں رہا۔ بس ایک شہادت کا romance ہے اور ان کی خواہش ہے کہ یہ بھی اپنے پشتون اور سندھی بھائیوں کے سامنے سر اٹھا کر کہہ سکیں، ہم نے بھی قربانیاں دی ہیں۔ خود چاہے کینیڈا بیٹھے ہوں۔
ارے بھائی، جنگیں شہید نہیں جیتا کرتے۔ جنگ جیتنے کے لئے زندہ رہنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ نواز شریف مر گیا تو پنجاب بھی دشمن ہو جائے گا تو خاطر جمع رکھیں، اس کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ ایک نواز شریف تھا، اب وہ بھی نہیں رہا، لہٰذا اب سب سے بہتر وہی ہیں، انہی کے ساتھ خوش رہو۔
جن کے خیال میں مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہو جائے گا، وہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے پاس سوا، سوا لاکھ کے تین، چار ہاتھی پہلے بھی ہیں۔ کیا اکھاڑ لیا ان چار، پانچ لاکھ سے آپ نے؟ جن سے آپ کی لڑائی ہے، ان کے پاس کروڑوں، اربوں، کھربوں ہیں۔ زندہ رہنے کی سبیل کریں۔ ؎ فصل باقی ہے تو تقسیم بدل سکتی ہے۔