اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں، بلوچستان کے صحافیوں کو جہاں میڈیا مالکان سے گلہ رہتا ہے وہیں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس سے بھی 34 اضلاع کے صحافی شکوہ کناں ہیں کہ یونین کا نام تو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس رکھا گیا ہے لیکن کوئٹہ کے صحافیوں کے علاوہ بلوچستان کے کسی صحافی کو بھی ممبرشپ نہیں دی جاتی۔
واشک پریس کلب کے اسماعیل عاصم کو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے نام پر بھی اعتراض ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ذمہ داران کو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کا نام کوئٹہ یونین آف جرنلسٹس رکھ دینا چاہئیے کیونکہ کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع کے کسی بھی صحافی کو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی ممبرشپ حاصل نہیں جبکہ اس صورت میں ان کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ پورے بلوچستان کا نام استعمال کریں۔
بلوچستان کے صنعتی شہر حب سے تعلق رکھنے والے جی این این کے نمائندہ عبدالحمید مگسی کے مطابق بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کو کوئٹہ کے صحافیوں کی تنظیم تو کہا جا سکتا ہے مگر وہ ہرگز بلوچستان کے دیگر اضلاع کے صحافیوں کی تنظیم نہیں اور نہ یہ تنظیم ان کے ساتھ مخلص ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کوئٹہ کے علاوہ کسی ایک صحافی کو انہوں نے ممبرشپ نہیں دے رکھی۔ پھر ہم کس طرح اس تنظیم کو پورے بلوچستان کے صحافیوں کی تنظیم کہیں؟ یہ بلوچستان کے صحافیوں کے ساتھ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ ہمارا مؤقف ہے کہ یا تو بلوچستان کے دیگر اضلاع کے صحافیوں کو ممبرشپ دی جائے یا پھر اس یونین کا نام بدل کر کوئٹہ یونین آف جرنلسٹس رکھا جائے، اس کے بعد ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے صحافیوں کی کسمپرسی کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، بلوچستان کے دیگر اضلاع کے صحافیوں کو یونین بنانے کی اجازت دے کر اپنے ساتھ منسلک کرے تاکہ ہم اپنے جائز حقوق لے سکیں۔ مزید یہ کہ اس طریقے سے یہاں صحافت مضبوط بھی ہو سکی گی۔
عبدالحمید مگسی بتاتے ہیں کہ ڈی جی پی آر کی طرف سے بلوچستان کو صحافیوں کو ایکریڈیشن کارڈ بھی نہیں ملتا۔ ایکریڈیشن کارڈ نہ ہونے کی بنا پر ہمیں بطور صحافی کوئی رعایت حاصل نہیں ہوتی۔ ڈی جی پی آر بھی بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی طرح صرف کوئٹہ کے مخصوص صحافیوں کو نوازتا ہے جو کہ بلوچستان کے دیگر صحافیوں کے ساتھ ناانصافی اور ان کی حق تلفی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ سے بلوچستان کے صحافیوں کی ممبرشپ اور کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع کو یونٹ نہ بنانے کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کوئٹہ کی یونٹ ہے جو کہ پی ایف یو جے کی ممبر ہے۔ بلوچستان کے دوسرے اضلاع بھی پی ایف یو جے کی ممبرشپ حاصل کر سکتے ہیں اگر وہ آئین کے مطابق ریکوائرمنٹ پوری کریں۔ آئین میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہر وہ ضلع جہاں سے روزانہ دو تین اخبارات نکلتے ہوں وہ یونٹ بنا سکتے ہیں اور پی ایف یو جے کی ممبرشپ ان کو ملتی ہے۔
افضل بٹ سے جب پوچھا گیا کہ اب تو بڑے بڑے شہروں میں اخبارات بند ہو رہے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا نے ان کی جگہ لے لی ہے، اس طرح کی صورت حال میں چھوٹے شہروں سے اخبارات کہاں چھپ سکیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہم مشاورت کر رہے ہیں کہ پالیسی میں ترمیم کی جائے اور ایسے اضلاع میں یونٹ کی اجازت دی جائے جہاں کل وقتی صحافی موجود ہوں۔ نیز ڈیجیٹل میڈیا ورکرز کے حوالے سے ہم پالیسی مرتب کر رہے ہیں۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید کا جب اس سے متعلق مؤقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اکثر اضلاع کے صحافی ملازم ہوتے ہیں جبکہ رولز کے مطابق صحافت اور ملازمت ایک ساتھ نہیں کی جا سکتی تو اس لیے ہم ان صحافیوں کو ممبرشپ نہیں دیتے جن کی ملازمت ہو۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے آئین کے مطابق کل وقتی صحافی بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی ممبرشپ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بہت سارے ورکنگ جرنلسٹس ہیں جو اپنے اپنے اداروں کے ساتھ کل وقتی طور پر کام کر رہے ہیں اور صحافت کے علاوہ ان کا اور کوئی پیشہ نہیں تو پھر ان کو کیوں ممبرشپ نہیں ملتی۔ اس کے جواب میں عرفان سعید نے بتایا کہ اب بھی نصیرآباد کے کچھ صحافیوں کی درخواستیں ہمارے پاس ہیں، ہم ان کے کیس کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر پالیسی کے مطابق کوئی درخواست دے گا تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔
کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ضلعی سطح پر یونین بنانے کے لئے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی شرائط میں یہ ہے کہ جس ضلع سے روزانہ کم از کم دو تین اخبارات نکلتے ہوں وہاں یونٹ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سوال پر کہ حب سے روزانہ پانچ چھ اخبارات نکلتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے حب کے ساتھیوں کو کہہ دیا ہے کہ اگر آپ لوگوں کے پاس ممبران پورے ہیں تو آپ یونٹ بنا سکتے ہیں جو کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سے ملحق ہو گی۔ ان کی ممبرشپ حاصل کرسکتے ہیں، اس کے لیے باقاعدہ درخواست دینا ہو گی۔
عرفان سعید نے بتایا کہ اگرچہ کوئٹہ کے علاوہ دیگر اضلاع کے صحافی بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے ممبر نہیں لیکن کسی بھی صحافی یا کسی ضلعی پریس کلب پر کوئی مشکل آنے کی صورت میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔ اس کی واضح مثال خضدار پریس کلب ہے۔ ایک ایسا وقت آیا تھا کہ خضدار پریس کلب کو بند کیا گیا تو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے ہی خضدار پریس کلب کو کھولنے میں کردار ادا کیا۔
خضدار پریس کلب کے ممبر عبدالجبار حسنی کہتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے میں کل وقتی صحافی ہیں اور ملازم بھی نہیں لیکن اسے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس میں ممبرشپ نہیں دی گئی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں ممبرشپ دی جائے جو ان کا حق بھی ہے تو وہ مزید توانائی کے ساتھ کام کر سکیں گے کیونکہ اس صورت میں اسے یقین ہو گا کہ ان کے پیچھے ایک مضبوط یونین کھڑی ہے جو ان کا جائز دفاع کر سکے گی۔ اس طرح ان کو ایسا پلیٹ فارم مہیا ہو گا جہاں وہ خضدار کے صحافیوں کے مسائل پر بھی بات کر سکیں گے۔