کرد پانچ ملکوں، شام، ترکی، عراق، ایران، اور آرمینیا کے پہاڑوں میں بستے ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ کے نسلی گروہوں میں آبادی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہیں لیکن ان کی کوئی ریاست نہیں ہے۔
حالیہ عشروں میں علاقائی حالات نےدنیا کی توجہ کردوں پر مرکوز کر دی ہے۔ کہیں تو وہ ترکی سے علیحدگی کے لیے لڑ رہے ہیں اور کہیں وہ شام میں اسلامی خلافت کے بڑھتے ہوئے اثر کے خلاف دیوار بنے ہوئے ہیں۔
کرد قوم اپنی جداگانہ زبان اور ثقافت کی حامل ہے لیکن اس کے پاس کوئی ملک نہیں ہے۔ ان کی مجموعی تعداد پچیس سے پینتیس ملین کے درمیان بنتی ہے۔ کئی ملکوں میں ان کی وطن کے حصول کی تحریکوں کو جبر کے ساتھ دبا دیا گیا۔
ترکی کو کردوں کی علیحدگی پسندی کی ایک مضبوط تحریک کا سامنا ہے۔ اسی طرح شام میں بھی کرد مسلح باغیوں کو امریکی حمایت حاصل ہے اور ان کے عسکری گروپ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کو جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری بھرپور عسکری کارروائیوں میں امریکی فضائی تعاون بھی حاصل ہے۔ ترکی کو اس صورت حال پر بھی تشویش ہے۔
چار ملکوں میں پھیلے ہوئے کرد بےگھری کا شکار ہیں
کرد بنیادی طور پر پہاڑی علاقوں کے مکین تصور کیے جاتے ہیں اور یہ تقریباً نصف ملین مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کئی مقامات پر ان کی آبادی کا تناسب 100 فیصد کے قریب ہے۔ یہ جنوبی ترکی سے شمالی شام اور عراق کے علاوہ ایران تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ترکی میں مجموعی آبادی کا یہ بیس فیصد (بارہ سے پندرہ ملین) ہیں جب کہ عراق میں ملکی آبادی کا پندرہ فیصد سے زائد (سینتالیس لاکھ) ہیں۔ شام میں کل آبادی کا پندرہ فیصد (بیس لاکھ سے زائد) ہیں اور ایران میں یہ کل آبادی میں دس فیصد سے کم (ساٹھ لاکھ) ہیں۔ کردوں کی ایک بڑی آبادی آرمینیا، آذربائیجان، جرمنی اور لبنان میں بھی آباد ہے۔
آبادی کے اس تناظر میں کرد عوام کے اتحاد کو مختلف ممالک ایک بڑے خطرے کے طور پر لیتے ہیں۔ ترکی میں کردستان ورکرز پارٹی کو خلاف قانون قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے لیڈر عبداللہ اوجلان ترکی کے ایک جزیرے پر قائم انتہائی سخت سکیورٹی کی جیل میں قید ہیں۔ اس پارٹی کو یورپی یونین اور امریکا بھی دہشت گرد گروپوں میں شمار کرتا ہے۔
فوجی آپریشن کا آغاز
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بدھ کو شام کے شمال مشرقی علاقے میں کرد جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ’’ترکی کی مسلح افواج اور شامی قومی فوج (جیش الحر) نے شام کے شمال میں ’آپریشن بہار امن‘ کا آغاز کردیا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’’اس فوجی کارروائی میں شمالی شام میں کرد جنگجوؤں اور داعش کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمارا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد پر دہشت گردی کی راہداری کو قائم ہونے سے روکنا اورعلاقے میں امن کا قیام ہے۔‘‘ ترکی کے ایک سکیورٹی عہدہ دار نے بتایا کہ فضائی حملوں سے اس آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے اور توپ خانے سے اس کی مدد کی جائے گی۔
دوسری جانب شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے ترجمان مصطفیٰ بالی نے کہا ہے کہ ’’ترکی کے لڑاکا طیاروں نے شہری علاقوں پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔‘‘
شام کے سرکاری میڈیا اور ایک کرد عہدیدار نے الگ سے بتایا کہ فضائی بمباری میں ترکی کی سرحد کے ساتھ شام کے شمال مشرق میں واقع قصبے راس العین کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔