دیامر بھاشا فنڈ اور ٹرک کی لال بتی

دیامر بھاشا فنڈ اور ٹرک کی لال بتی
ٹرک کی لال بتی کے پیچھے بھاگتے رہنا یوں تو بیوقوفانہ فعل قرار دیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس احمقانہ مشغلے سے جنون کی حد تک عشق کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک وطن عزیز میں بسنے والی عوام احتساب، لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور قومی خزانہ اس دولت کی واپسی سے سے بھر جانے کے قصے کہانیوں پر ایمان کامل لاتے ہوئے بس ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگے ہی جا رہی ہے۔ ہر دور میں نادیدہ قوتیں سیاسی اور عوامی لیڈر تیار کرتی ہیں، اسے کرسی پر بٹھاتی ہیں اور پھر جب وہ لیڈر عوام میں مقبول ہو کر ڈکٹیشن لینے کی بجائے اپنی سمجھ بوجھ سے فیصلے کرنے لگتا ہے تو اسے فوراً کرپشن اور لوٹ مار کے جرم میں فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اگلی کٹھ پتلی تیار کی جاتی ہے اور عوام احتساب کے سراب کے پیچھے اندھا دھند اس کٹھ پتلی کی تقلید پر آمادہ ہو جاتی ہے۔

عوام کی اکثریت کرپشن کی سب مافوق الفطرت کہانیوں پر ایمان رکھتی ہے

المیہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو اس بات پر سو فیصد یقین ہے کہ سیاستدانوں کی لوٹ مار کے جتنے مافوق الفطرت اور الف لیلوی قصے انہوں نے سن رکھے ہیں وہ سب درست ہیں اور ایک دن کوئی نہ کوئی مسیحا ایسا آئے گا جو یہ لوٹی ہوئی دولت جو مبینہ طور پر بیرون ملک پڑی ہے اسے وطن عزیز میں واپس لا کر سرکاری خزانے میں جمع کروا دے گا اور یوں وطن عزیز کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور چار سو دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ اس افسانوی اور تخیلاتی کہانی پر یقین رکھنے والوں کی یہ علت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ بار بار احتساب کے نام پر حکومتوں کے تختے الٹنے اور مقبول عوامی سیاستدانوں کو جیلوں میں بھیجنے اور مطلوبہ نتائج یعنی لوٹی ہوئی دولت کی ایک پائی بھی واپس نہ آنے کے باوجود اس علت کے مارے اسی فرضی کہانی کو سچ مان کر ہر بار آسمانوں سے من و سلویٰ اترنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔

عمران خان کو اندازہ ہے کہ پرفریب نعروں کے سہارے اپنے حمایتی کو اپنا مرید رکھا جا سکتا ہے

موجودہ حکومت کی ہی مثال لے لیجئے۔ تحریک انصاف کی اس حکومت سے وطن عزیز کی عوام کے ایک حصے کی بے حد توقعات وابستہ ہیں کہ یہ حکومت عمران خان کی سربراہی میں پاکستان میں ہونے والی تمام کرپشن کو ختم کر دے گی اور پچھلے ادوار میں لوٹی گئی رقم وطن عزیز کے خزانے میں واپس بھی لے آئے گی۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کی کرسی تک پہنچنے والے عمران خان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ عوام کا وہ حصہ جو انہیں اپنا پیر و مرشد مانتا ہے اسے بس پرفریب نعروں اور عجیب و غریب دعؤوں کے سہارے اپنا مرید رکھ کر باآسانی کام چلایا جا سکتا ہے۔ آخر کو پچھلے پانچ برس سے جو لوگ خیبر پختونخوا میں 350 ڈیم بنے دیکھ سکتے ہیں، جن افراد کو خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت بھی نظر آتے ہیں اور اس صوبے میں جنہیں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی دکھائی دیتی ہیں ان لوگوں کو باآسانی دیامر بھاشا ڈیم خیرات اور چندے پر بنتا بھی دکھایا جا سکتا ہے اور ملک بھی خیرات کے بل پر ترقی کرتا دکھایا جا سکتا ہے۔

اپنی سبکی سے توجہ ہٹانے کا ایک طریقہ

ان لوگوں کو یہ چورن بھی بیچا جا سکتا ہے کہ نواز شریف سارا ملک بیچ کر کھا گیا جبکہ مشرف، جہانگیر ترین، علیم خان اور چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد نے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے دن رات ایک کر دیے۔ عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد جس طریقے سے پہلے خارجہ محاذ پر عمران خان نے اپنی اور وطن عزیز کی سبکی کروائی، پھر شدت پسندوں کے دباؤ میں آتے ہوئے عاطف میاں کو اپنی اکنامک ایڈوائزری ٹیم کا حصہ بنانے کے بعد فارغ کیا اور گیس، بجلی، کھاد اور چینی کے نرخوں میں اضافہ کیا، اس کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے یہ ناگزیر ہو چکا تھا کہ اپنے اندھے عقیدتمندوں کو فوراً کسی نئے شوشے کے پیچھے لگا کر ساری توجہ اس جانب مبذول کروا دی جائے۔ چنانچہ دیامر بھاشا ڈیم کے لئے چندے اور خیرات کی اپیل محترم عمران خان نے خود کر ڈالی اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ایک ہزار ڈالر فی کس بھیجنے کی درخواست کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم آپ کی بھیجی ہوئی خیرات اور امداد سے ایک تیر سے دو شکار کریں گے۔ ایک تو اس سے یہ ڈیم بنائیں گے، دوسرا ڈالرز آنے کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھا کر کرنسی کے بحران اور بجٹ کے تجارتی خسارے میں بھی کمی کر ڈالیں گے۔

ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر فرضی طور پر اربوں ڈالرز اکٹھے بھی ہو چکے ہیں

یقیناً عمران خان صاحب سے اندھی عقیدت رکھنے والوں کو وطن عزیز کے معاملات کو خیرات سے چلانے کی ایک غیر سنجیدہ سوچ بھی نہ صرف انتہائی دانشوارانہ سوچ لگ رہی ہے بلکہ اب خیرات کے دم پر ڈیم بنانے کو ان عقیدت کے اندھوں نے حب الوطنی کے لوازمات میں بھی شامل کر ڈالا ہے۔ آپ اس احمقانہ اور غیر دانشمندانہ اقدام کی مخالفت کریں تو آپ کو ملک دشمن یا نواز لیگ سے لفافہ لینے والے صحافی و لکھاری کا لقب عطا کر دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر فرضی طور پر اربوں ڈالرز اکٹھے بھی ہو چکے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ پچھلے پانچ سال سے مسلسل پروپیگینڈا کے دم پر اپنے عقیدتمندوں کو مسلسل حقیقت فراموش کروا کر جس طرح پراپیگینڈے پر یقین کروانے کی لت ڈالی گئی، شاید تحریک انصاف کا خیال تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد اسی طرح دنیا بھر سے بھی اپنے فرضی کارناموں یا عجیب و غریب فیصلوں پر یقین اور اعتماد حاصل کر لیا جائے گا۔ لیکن کیا کیجئے کہ دنیا جذبات اور رومان پروری کے سہارے نہیں چلتی۔ کوئی بھی انوسٹر یا بیرونی ملک تب تک آپ کے ساتھ ساجھے داری نہیں کرتا یا آپ کو سرمایہ مہیا نہیں کرتا جب تک کہ اسے جامع کاروباری و معاشی حکمت عملی اور منافع کے زیادہ ہونے کی پرکشش اور دلیل پر مبنی ٹھوس تجاویز نہ فراہم کی جائیں۔ اب امریکہ سے عمران خان کو فی الحال کوئی مثبت پیغام نہیں آ رہا جبکہ بیجنگ ابھی غور سے اس نوزائیدہ حکومت کی حرکات و سکنات کے مشاہدے میں مصروف ہے۔ سعودی عرب فی الحال ادھار پر تیل دینے پر آمادہ نہیں ہے جبکہ فرانس کے صدر کو کپتان نے خود ہی لفٹ کروانے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرضے کے سوا حکومت وقت کے پاس عملاً اور کوئ چارہ نہیں ہے۔ یعنی عمران خان اپنے ہی کہے کی نفی کرتے ہوئے خود امداد مانگنے اپنے وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف بھیجیں گے۔

بھاشا ڈیم چندے سے بنانے کا دعویٰ باکل ایسا ہی دعویٰ ہے جیسا آغا وقار نے پانی سے گاڑی چلانے کا کیا تھا

اس خفت اور ندامت کو مٹانے کا یہ اچھا طریقہ ہے کہ ڈیم فنڈ کا شوشہ چھوڑا جائے اور اپنے عقیدتمندوں کو ڈیم کے لئے چندہ جمع کرنے کی مہم میں مصروف کر دیا جائے۔ 14 ارب ڈالرز کی مالیت سے تیار ہونے والا بھاشا ڈیم چندے سے بنانے کا دعویٰ کرنا باکل ایسا ہی دعویٰ ہے جیسا آغا وقار نے پانی سے گاڑی چلانے کا کیا تھا۔ لیکن افسانوی قصے کہانوں پر یقین رکھنے والوں کے لئے یہ حقیقت کی مانند ہے۔ دنیا بھر میں امور مملکت چلانے کے کچھ طے شدہ اصول ہوتے ہیں اور سربراہ مملکت کبھی بھی اس طرح کی بچگانہ باتیں کر کے محض اپنے ووٹ بنک کو خوش کرنے کے لئے دنیا بھر میں اپنا مذاق نہیں اڑوایا کرتے۔ اگر چندوں اور خیرات سے ملک چلانا ممکن ہوتا یا اقتصادی و معاشی اہداف حاصل کرنا ممکن ہوتا تو تیسری دنیا کے تمام ممالک بہت پہلے ہی چندے اور خیرات حاصل کر کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جاتے۔

غیر دانشمندانہ باتیں اور خواہشات پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی کا باعث بنتی ہیں

خیبر پختونخوا کی حکومت کی حد تک یا اپوزیشن میں رہ کر اندرون ملک کی حد تک تو یہ بچگانہ حرکتیں کسی نہ کسی طرح برداشت ہو ہی جاتی تھیں لیکن اب حکومت میں آ کر اس طرح کی غیر دانشمندانہ باتیں اور خواہشات پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی کا باعث بنتی ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کے فنڈ میں جس طریقے سے معزز چیف جسٹس نے فنڈز کبھی جرمانوں اور کبھی تنخواہوں میں کٹوتی کر کے حاصل کیے ہیں ابھی تک اس کا زخم مندمل نہیں ہونے پایا تھا کہ وزیراعظم عمران خانے نے ایک نیا شگوفہ چھوڑ دیا ہے۔ ملک ہسپتال نہیں ہے جسے چندہ جمع کر کے اور سرکار سے زمین حاصل کر کے تعمیر کر لیا جائے۔ اگر تحریک انصاف کے پاس کوئی ٹھوس معاشی حکمت عملی موجود نہیں ہے تو اسے سارا دھیان ایک مربوط معاشی پالیسی مرتب کرتے ہوئے اس طرح کی احمقانہ حرکات سے باز رہنا چائیے۔

غیر ملکی انوسٹر بھلا کیونکر آپ کے پاس انوسٹمنٹ کرنے آئے گا؟

بیرون ملک پاکستانیوں سے ڈیم کے چندے کی اپیل اور ڈالرز بھیج کر فارن ریزرو بڑھانے کی بات کر کے عمران خان نے پوری دنیا کے انوسٹرز کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہم معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور اب چندے اور خیرات کے طالب ہیں۔ ایسے حالات میں کوئی بھی غیر ملکی انوسٹر بھلا کیونکر آپ کے پاس انوسٹمنٹ کرنے آئے گا۔ ٹرک کی لال بتی کے پیچھے پراپیگینڈے کا شکار اور احتساب کی کہانیوں پر یقین کی علت والے حضرات تو دوڑ سکتے ہیں لیکن دنیا بھر کی حکومتیں یا بزنس مین نہیں۔ ویسے بھی کہاوت ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو تو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن سب کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔