افغان دارالحکومت کابل میں احتجاج کی کوریج کرنے والے دو صحافیوں کو طالبان نے کافی دیر تک حراست میں رکھنے کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دونوں صحافیوں کو بدھ کے روز ایک مظاہرے کے دوران اٹھایا گیا اور وہاں سے کابل کے ایک پولیس اسٹیشن لے جایا گیا انہیں ڈنڈوں، برقی تاروں اور کوڑوں سے مارا گیا۔
فوٹو گرافر نعمت اللہ نقدی نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان اہلکاروں میں سے ایک نے میرے سر پر پاؤں رکھا اور میرے چہرے کو کنکریٹ پر دبا دیا، میرے سر پر لات ماری، میں نے سوچا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے۔ طالبان حکام نے اے ایف پی کی جانب سے بار بار رابطے کے باوجود اس حوالے سے جواب نہیں دیا۔
رپورٹ کے مطابق جامع حکومت کے وعدوں کے باوجود طالبان اپنی نئی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لے رہے ہیں۔ بدھ کی رات انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ وزارت انصاف کی طرف سے اجازت نہ ملنے تک مظاہرے غیر قانونی ہیں۔ نعمت اللہ اور اس کے ساتھی رپورٹر تقی دریابی دونوں اطلاعات روز کے لیے کام کرتے ہیں اور انہیں پولیس اسٹیشن ایک چھوٹے سے احتجاج کی کوریج سونپی گئی تھی جہاں خواتین کام کرنے اور تعلیم کا حق دینے کا مطالبہ کررہی تھیں۔
نعمت اللہ نے مزید کہا کہ جیسے ہی اس نے تصویر کھینچنا شروع کی تو اسے ایک طالبان اہلکار نے پہچان لیا۔ طالبان نے مجھے بتایا کہ آپ فلم نہیں بنا سکتے اور فلم بندی کرنے والے تمام لوگوں کو گرفتار کر لیا اور ان کے فون لے گئے تھے۔
فوٹو گرافر نے کہا کہ طالبان نے ان کا کیمرہ پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اسے ہجوم میں سے کسی کو سونپنے میں کامیاب رہے تاہم تین طالبان جنگجوؤں نے انہیں پکڑ لیا اور تھانے لے جا کر مار پیٹ شروع کردی۔
نعمت اللہ نقدی نے کہا کہ طالبان نے میری تضحیک کرتے ہوئے مجھے لاتیں ماریں، جب ان سے پوچھا کہ کیوں مارا جا رہا ہے تو صرف یہ بولے کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کا سر قلم نہیں کیا گیا۔
ان کو بالآخر ایک پرہجوم سیل میں لے جایا گیا جہاں ان کے ساتھی تقی دریابی بھی موجود تھے اور ان کو بھی گرفتار کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔تقی دریابی نے کہا کہ ہم اتنی تکلیف میں تھے کہ ہم حرکت بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ چند گھنٹوں کے بعد دونوں ساتھی صحافیوں کو بغیر کسی وضاحت کے رہا کر دیا گیا۔
طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق آزادی صحافت کو برقرار رکھیں گے لیکن اس کے برعکس احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو ملک بھر میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں درجنوں صحافیوں کو مارے جانے، حراست میں لینے یا احتجاج کی کوریج سے روکنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں اور ان میں زیادہ تر افغان صحافی ہیں، جنہیں طالبان غیر ملکی میڈیا سے زیادہ ہراساں کرتے ہیں۔
اطلاعات روز اخبار کے ایڈیٹر ذکی دریابی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے الفاظ کھوکھلے دعوے ہیں، یہ سرکاری تقریر زمینی حقائق سے بالکل مختلف ہے۔
دوسری جانب کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں صحافیوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ فوری بند کریں، ان کے خلاف تشدد ترک کیا جائے اور میڈیا کو آزادانہ اور انتقامی کارروائی کے بغیر کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ ایک بیان میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ نے کہا کہ طالبان نے کابل میں مظاہروں کی کوریج کرنے والے کم از کم 14 صحافیوں کو حراست میں لیا اور بعد میں رہا کر دیا۔ انہوں نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کم از کم 6 صحافیوں کو ان کی گرفتاری یا حراست کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔