نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

سو بار عقیق کٹا تب نگیں ہوا

محنت ایک ایسا جادو ہے جس کی بدولت صحرا میں پھول،  گھپ اندھیرے میں چراغ الغرض یہ کہ ناممکنات کو ممکنات میں بدلا جا سکتا ہے۔ یہ محنت ہی ہے جس کی بدولت انسان چاند پر قدم رکھنے میں کامیاب ہو گیا، آج انسان نے پہاڑوں کا سینہ تک چاک کر لیا ہے اور زمین کی گہرائیوں میں بھی قدم جما لیے۔ محنت کی ایک عمدہ اور قابل ذکر مثال قیام پاکستان ہے جس میں آج ہم آزادانہ سانس لے رہے ہیں۔ یہ ملک بھی قائد کی انتھک محنت، اقبال کا خواب، سر سید اور ان جیسے کئی عظیم لیڈروں کی دن رات محنت کا نتیجہ ہے۔ اس وطن کے حصول کے لیے دی گئی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ۔ اگر آج کوئی محنت کی اہمیت کا انکار کرے اور قسمت پہ زور دے تو میں اس کو کہنا چاہوں گی کہ

پھول یونہی نہیں کھلتے

بیج کو دفن ہونا پڑتا ہے

ہمارا دین اسلام بھی محنت پہ زور دیتا ہے۔ قرآن و احادیث میں بارہا محنت کرنے والے کو اللہ کا دوست کہا گیا اور اللہ تعالٰی محنت مشقت کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اس دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچا کہ اس زمین پرنور ہدایت کا بول بالا کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ پیغمبر بھی کسی نہ کسی پیشے سے منسلک تھے  جیسا کہ حضرت آدم نے پہلے پہل کپڑا بننے کا کام کیا پھر کاشتکاری سے منسلک ہو گئے۔ جو بیج وہ جنت سے لے کے آئے ان کو کاشت کرتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بات کی جائے تو وہ لکڑی کا کام کرتے تھے۔ حضرت ادریس علیہ السلام درزی تھے جب کہ حضرت ہود علیہ السلام تجارت کرتے تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیشہ کھیتی باڑی تھا اور حضرت شعیب علیہ السلام بکریاں پالتے تھے۔ المختصر یہ کہ آقا دوجہاں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی کچھ عرصہ بکریاں پالی پھر تجارت سے منسلک ہو گئے۔ گویا ہاتھ سے کمانا سنت نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اگر جہاد کے بعد مجھے کسی حال میں موت پسند ہے تو وہ یہ ہے کہ میں رزق کی تلاش میں کسی پہاڑی درے سے گر کر مر جاؤں۔

تاریخ عینی شاید ہے ہر اس قوم نے ترقی کی جو محنت و مشقت کی راہ پر گامزن ہوئی اور جس قوم نے شارٹ کٹ ڈھونڈنے وہ تنزلی کا شکار ہوئی۔ ایک خاندان بھی تب ہی چلتا ہے جب میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور گھر کی گاڑی کو چلانے کے لیے دو پہیوں کی طرح کام کریں۔

ہماری کاہلی اور سستی کے باعث فی الوقت ہماری حالت ابتری کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے کیونکہ ہم نے اسلاف کی کوششوں کو بڑھاوا دینے کے بجائے انہیں ضائع کر دیا۔ آج ہمارے ہی اسلاف کے چھوڑے گے گراں قدر سرمائے کو یورپ استعمال کر کے سپر پاور بننے کے چکر میں ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم اپنی طاقتوں کو فضول کاموں میں صرف کرنے کے بجائے کسی ایسے کام میں لگائیں جس سے نہ صرف ہم ترقی کریں بلکی ہمارے ملک کو بھی فائدہ ہو، تو ہم جلد ہی اس ملک کو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کہ صف میں کھڑا کر سکتے ہیں۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی

نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا

مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی

جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

مصنفہ سے ٹوئٹر پر @iamhumera_ پہ رابطہ کیا جا سکتا ہے۔