لاہور پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال پر بیٹھے صحافی ازھر منیر کے لاہور پریس کلب کی حدود میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ قریب 60 سالہ ازھر منیر لاہور پریس کلب کے لائف ممبر ہیں جو جنگ/جیو کے مالک میر شکیل الرحمٰن کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف گذشتہ ہفتہ بھر سے شملہ پہاڑی پر واقع لاہور پریس کلب کے مرکزی داخلی گیٹ کے بالمقابل فٹ پاتھ پر بھوک ہڑتال کیے ہوئے ہیں۔
ابتدائی دنوں میں معروف اینکر سہیل وڑائچ سمیت جنگ جیو سے وابستہ بعض صحافیوں نے ان سے ان کے ہڑتالی کیمپ پر آ کر ملاقات کی، ازھر منیر کا کہنا تھا کہ سہیل وڑائچ انہیں بھوک ہڑتال ختم کرنے کی درخواست کرنے آئے تھے اور یہ کہ انہیں جنگ جیو گروپ کے مالکان میر شکیل الرحمٰن اور میر ابراہیم نے اس مقصد کے لئے بھیجا تھا۔ ہڑتالی صحافی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مختلف خفیہ اداروں کے لوگ بھی ان کے پاس آ کر بھوک ہڑتال ختم کرنے پر اصرار کر رہے ہیں کہ ان کے اس عمل سے ان کے بقول حکومت کی بدنامی ہو رہی ہے۔
وہ کسی بھی ادارے میں نوکری کے لئے درخواست دینے یا CV جمع کروانے کے سخت خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے جنہوں نے مجھے ملازم رکھنا ہے وہ خود مجھ سے رابطہ کریں۔
اس دوران انہوں نے چند کتابیں لکھیں جو پڑھنے والوں کی توجہ حاصل نہیں کر پائیں۔ وہ سرائے عالمگیر کے پروفیسر اکبر منیر کے چھوٹے صاحبزادے ہیں جو ملتان کے تاریخی ایمرسن کالج میں فارسی کے استاد تھے جو اب گورنمنٹ کالج، بوسن روڈ کہلاتا ہے۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان جیسے بعض جید سیاست دان ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔
پروفیسر اکبر منیر، غلام رسول مہر کی طرح علامہ اقبال کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔
ان کے بچوں میں ازھر منیر اگرچہ بطور صحافی یا رائٹر تو اپنی کوئی شناخت نہیں رکھتے البتہ وہ نہائت منفرد اور دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں اور ان کا لائف سٹائل ان کی اصل شناخت ہے۔ انہوں نے شادی نہیں کی، اپنی پوری جوانی ایک پرائیویٹ ہاسٹل کے کمرے میں گزار دی، وہ برس ہا برس سے باقاعدگی کے ساتھ مزنگ اڈے سے شملہ پہاڑی پیدل پریس کلب آتے اور واپس ہاسٹل جاتے ہیں۔ ان دنوں علی الصبح ساڑھے 4 بجے پریس کلب آنا ان کا معمول تھا۔