تحریر: (بیرسٹر اویس بابر) اگر آپ نے ابھی تک قربانی کا جانور نہیں خریدا تو کوئی بات نہیں۔ آپ کے حصے کی قربانی وزیراعظم پاکستان ایڈوانس میں کشمیر کا سودا امریکہ میں کر کے کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مجھ سے اس عظیم الزام کا ثبوت مانگا جائے کچھ حقائق مندرجہ ذیل پیشِ خدمت ہیں۔
اب وہ دنیا نہیں رہی کہ 17 سال کا نوجوان اپنے چچا کے کہنے پہ سندھ فتح کر آئے، فتوحات کا سلسلہ ختم ہو چلا ہے۔ اب اگر آپ نے کوئی سرزمین فتح کر بھی لی جس کو آپ حقیقتاً اپنا سمجھتے بھی ہوں تب بھی آپ کو کبھی نہ کبھی وہ جگہ ذلّت کے ساتھ چھوڑنا ہو گی۔ اس کی انتہائی آسان مثال یہ لے لیجئے کہ آج سے شاید کئی سو سال پہلے مالک مکان کا کرایا نہ ملنے پر ٹھڈے مار کر کرایہ دار اور اس کے سب گھر والوں کو اپنے مکان سے نکال دیتا ہو گا۔ لیکن آج 2019 میں یہ حرکت کوئی کر کے تو دکھائے، چاہے آپ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔
عراق نے 1990 میں کویت پر حملہ کر دیا اور دو دنوں میں پورے کویت پر قابض ہو گیا۔ کچھ ہی روز میں عراق کے حکمران صدّام حسین نے کویت کو عراق میں اُنیسویں صوبے کے طور پہ شامل کر دیا۔ لیکن ہوا کیا، پوری دنیا عراق سے متنفر ہو گئی اور اس کو شدید بین الاقوامی دباؤ میں 7 مہینوں کے اندر اندر واپس جانا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ جیسی قوت نے بھی کبھی افغانستان کے اوپر مکمل قبضہ کرنے کی بات نہیں کی۔
اسی طرح کی ایک مہم جوئی پاکستان نے کارگل میں کی تھی، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ریاست کا عزم نیک تھا یعنی کشمیریوں کو آزادی دلانا۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ بین الاقوامی محرکات تبدیل ہو چکے ہیں۔ ایک اور بات یہ کہ بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی عمل ایک شخص کا عمل تصور نہیں کیا جاتا بلکہ پوری ریاست کا عمل تصور کیا جاتا ہے۔ اسی لئے چاہے آپ ملک ٹوٹنے کا ذمہ دار بے شک بھٹو کو اور کارگل کی ناکامی کا سہرا نواز شریف کو پہنا بھی دیں تب بھی دنیا یہی کہے گی کہ پاکستان اپنے ہی ملک کے باشندوں یعنی مغربی پاکستان پہ مظالم کی وجہ سے اس حصے سے ہاتھ دھو بیٹھا، اور ظاہر ہے یہ بھی کہ پاکستان کارگل کی مہم جوئی میں بری طرح ناکام ہو گیا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ ہم اپنے ماضی سے سیکھیں ہمارے ہاں عجیب قسم کے تجزیے اور عجیب قسم کی تاریخ لکھ کر اصل موضوع کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جاتا ہے۔
نعیم بخاری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ جب میاں صاحب کو کارگل آپریشن کی بریفنگ دی گئی اور جب سب ان سے کچھ سننے کے منتظر تھے تو میاں صاحب نے ٹیبل پہ پڑے سینڈوچ کی تعریف کر ڈالی۔ نعیم بخاری نے تو یہ بات میاں صاحب کی تضحیک کی غرض سے کی تھی کہ ان کو اتنے سنجیدہ موقع پہ کھانے پینے کی پڑی تھی لیکن بات یہ ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد جب آپ وزیراعظم کو بتائیں گے، یعنی وہ شخص جس نے آپ کے کرامات کا پوری دنیا کو جواب دینا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ سینڈوچ بہت مزیدار ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کا وزیرِاعظم آپ کو کہہ بھی کیا سکتا ہے۔ کارگل سے واپسی کا الزام چاہے آپ کسی پہ بھی لگا لیں، واپس تو آپ کو کبھی نہ کبھی آنا تھا۔ اس کے برعکس خان صاحب کو پہلے سے بریفنگ دے دی جاتی ہے تو دیکھیں وہ کیسے ہماری عوام کے لئے ورلڈ کپ لے آئے۔
یہ ساری رام کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو جدید بین الاقوامی اصولوں کی نظر میں یہ سمجھایا جا سکے کہ ابھی ابھی جو بھارت نے کشمیر کے ساتھ کیا ہے ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی اس میں مرضی شامل نہ ہو۔ آپ عسکری اور سول دونوں حکمرانوں کی باڈی لینگوئج ہی ملاحظہ کر لیں۔ اس میں وہ سختی اور جنون نظر نہیں آ رہا۔ یہ وہی باڈی لینگوئج ہے جو ماں باپ اپنے بچے کو ٹیکہ لگواتے ہوئے اپناتے ہیں تا کہ بچے کی توجہ مبذول کرکے ڈاکٹر کو موقع دیا جا سکے کہ وہ تسلّی سے ٹیکہ لگا لے۔ ڈاکٹر مودی نے یہ ٹیکہ وارڈ میں موجود سب لوگوں کی منشا سے لگایا ہے۔
وزیرِاعظم پوچھتے ہیں کہ میں کیا کروں؟ بھئی اگر ہمیں پتا ہوتا تو ہمیں آپ کو وزیرِاعظم بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ پوچھ کر کہ میں کیا کروں؟ خان صاحب نے خود ثابت کر دیا کہ ان کو ریاست اور عام زندگی کے معاملات کی کوئی سمجھ بوج نہیں ہے۔ پاکستان سے ملک بدر صحافی طارق فتح سے بھارت میں ان دنوں جب خان صاحب کو وزیرِاعظم بنے چند دن ہی گزرے تھے پوچھا گیا کہ وہ خان صاحب کو بطور وزیراعظم کیسے دیکھتے ہیں تو انہوں نے بڑا دلچسپ جواب دیا۔ وہ جواب یہ تھا کہ خان صاحب اپنی زندگی میں کبھی دفتر نہیں گئے تو وہ ملک چلائیں گے کیسے۔ یہی بات خان صاحب بھی کہتے ہیں کہ ان کو کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ ان کا کوئی خاص خرچہ تو ہے نہیں۔ خواہشات دوست پوری کر لیتے ہیں، بچے سابقہ اہلیہ نے پال لیے، ایسی سوچ ایک ترقی پسند انسان کی ہو ہی نہیں سکتی۔
خان صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 2001 میں ان کی پارٹی تحریکِ انصاف کا سارا قرضہ ان کے کزن نے اتارا جس کی خان صاحب نے جوئے میں مدد کی تھی۔ میرا مقصد خان صاحب کے اوپر اخلاقی الزام لگانا نہیں۔ آپ صرف یہ دیکھیے کہ دنیا کے بڑے بڑے بزنس مین اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہیں کہ کیسے قطرہ قطرہ کر کے انہوں نے دریا بنایا، کیسے انہوں نے ایک ایک روپے بچا کے اپنے اوپر سے قرضے اتارے۔ دوسری طرف خان صاحب ہیں جو فخر سے یہ بتا رہے ہیں کہ کیسے ایک جھٹکے میں دو نمبر طریقے سے بظاہر اپنے کزن کی ہیلپ کر کے انہوں نے قرض اتار لیا۔ اسی طرزِعمل پہ وہ ملک چلا رہے ہیں کہ کہیں ایک ہی جھٹکے سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ ابھی تک انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ کہا جا سکے کہ واہ!
انسان کام صرف پیسہ کمانے کے لئے نہیں کرتا، کام کرنے کے بہت سے فضائل ہیں جن کی تفصیل کسی ایسے شخص سے پوچھیں کہ جس کے پاس پیسہ کافی ہے لیکن کچھ کرنے کو نہیں ہے۔
خان صاحب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سےبات چیت کے دوران کہا کہ آپ اطمینان رکھیں جو وعدے ہم آپ سے کر کے جا رہے ہیں وہ عین اُسی طرح پورے کئے جائیں گے اور خوب وعدہ پورا کیا انہوں نے۔ اب ڈرامہ بازی کے لئے آپ بے شک ہائی کمشنر کو واپس بھیج دیں، ائیر سپیس بند کر دیں، یا چائنا سے بیان دلوا دیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اب آپ بیشک بیان دیتے رہیں کہ اگر بھارت نے حملہ کر دیا تو ہم بھرپور جواب دیں گے۔ یہ بیان تو دنیا کا کمزور ترین وزیراعظم اور دنیا کی کمزور ترین فوج بھی دے گی کہ ہم آپ کی ایسی تیسی کر دیں گے۔ نارتھ کوریا کے حکمران کِم جان ہی کو دیکھ لیجئے کہ وہ کیسے امریکہ کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ زمبابوے کا کپتان بھی میچ شروع ہونے سے پہلے جیت کے عزم کا اظہار کرتا ہے چاہے اس کے مدِمقابل آسٹریلیا ہی کیوں نہ ہو۔ اب تو بھارت کا ہم پر حملہ کرنے کا جواز ہی ختم ہو چکا، اب تو قربانی ہو چکی۔
(ازراہ تفنن)