تحریر: (کنور نعیم) کوئی بھی سرمایہ دار ایسی کسی چیز یا جگہ پر پیسہ نہیں لگاتا جہاں منافع نہ ہو یا بہت ہی کم ہو۔ چونکہ نظام سرمایہ دارانہ ہے، تو ہر شے منڈی کے اصول پر پیسے کے عوض دستیاب ہوتی ہے۔ پھر چاہے وہ تعلیم ہی کیوں نہ ہو۔ بچے کی پیدائش سے لیکر اسکی 16 سالہ تعلیم تک کے خرچ کا اگر تخمینہ لگایا جائے تو وہ لاکھوں میں بنتا ہے۔
ہمارے ملک میں، ایک ماسٹرز کیا شخص، عموماً بیس سے تیس ہزار روپے کی نوکری ہی حاصل کر پاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی سرمایہ کاری ہے کہ جہاں لاکھوں روپے اس لیے خرچ دیے گئے کہ بچہ بیس یا تیس ہزار روپے کما سکے؟ جب ہر طرف پڑھے لکھے افراد زلف پریشاں اور چاک گریباں لیے پھر رہے ہوں تو ہم کیسے کسی کو تعلیم کے فوائد پر آمادہ کر سکیں گے؟ کوئی اپنی اولاد کی تعلیم پر پیسہ لگانے کے بجائے کیوں نہ پھر کاروبار پر لگائے؟ جیسے کسی ملحد کو خدا کے ہونے پر قائل کیا جائے تو وہ تمام منطقوں کے بعد ایک ہی بات کہتا ہے کہ، کچھ ثبوت بھی تو لاؤ۔
یہی حال تعلیم کا ہم لوگوں نے کردیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس سے اخلاق سنورتا ہے، تہذیب آتی ہے اور وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا تہذیب یافتہ شخص کے مسائل، بغیر وسائل کے حل ہوتے ہیں؟ کیا اخلاق سے مالا مال شخص کو بھوک نہیں لگتی؟ کیا اس کے خواب نہیں ہوتے؟ کیا پڑھے لکھے شخص کی اولاد نہیں ہوتی؟ کیا اس اولاد کے اخراجات نہیں ہوتے؟ تو پھر کیوں ہم تعلیم یافتہ افراد کو تمیز تہذیب کا تاج پہنا کر خالی پیٹ مار دیتے ہیں؟
اگر نوکری نہ ملنے کا سبب یہ ہے کہ نوجوانوں میں ذہانت کی کمی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انہیں تعلیمی اداروں نے ڈگریاں کیسے دے دیں؟ ایسا شخص تعلیمی اداروں میں سولہ سال تک کیسے چلتا رہا؟ اگر مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ جس قدر طلباء ہر سال تعلیمی اداروں سے نکلتے ہیں، اتنی نوکریاں موجود نہیں تو پھر اتنے طلباء کو داخلہ کیوں دیا جاتا ہے؟ گڑ بڑ اگر یہ ہے کہ کچھ مضامین ایسے ہیں کہ جن کی نوکریاں یا تو موجود ہی نہیں یا آٹے میں نمک کے برابر ہیں تو ان مضامین کو تعلیمی اداروں سے خارج کیوں نہیں کیا جاتا؟
اگر مسئلہ کہیں نہیں، مگر نظام اور اخلاص میں ہے تو حکومت کو چاہیئے کہ وہ یا تو تعلیمی ادارے بند کردے یا داخلے، نوکریوں کی دستیابی کے تناسب سے دیے جائیں اگر یہ سب نہیں کرنا تو Brain Drain کو نہ رویا جائے۔
ہمارے تعلیمی ادارے ہر سال کیا تیار کرتے ہیں؟ تعلیم یافتہ کھیپ یا پھر لاکھوں کی تعداد میں ڈپریشن کے مریض، یہ ہمیں سوچنا ہوگا۔
کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔