Get Alerts

نجی تعلیمی اداروں پر ٹیکس لگانے سے تعلیمی معیار بہتر ہو سکتا ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں پر لگائے گئے ٹیکس کے منفی اثرات ظاہر ہوں گے۔ والدین پر مالی بوجھ میں اضافہ ہو گا، نجی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو گی اور تعلیمی معیار گر جائے گا۔ صرف ٹیکس نافذ کرنے سے مسائل نہیں حل ہوں گے۔

نجی تعلیمی اداروں پر ٹیکس لگانے سے تعلیمی معیار بہتر ہو سکتا ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں پر نئے ٹیکس کا نفاذ کئی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ نئے فنانس بل کے تحت پرائمری سکول پر 40 ہزار، مڈل سکول پر 50 ہزار، ہائی سکول پر ایک لاکھ اور پرائیویٹ یونیورسٹی پر اڑھائی لاکھ روپے سالانہ ٹیکس لگایا گیا ہے۔ یہ ٹیکس بظاہر تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لیے لگائے گئے ہیں مگر مختلف پہلوؤں سے ان کے اثرات زیرِ بحث ہیں۔

اس نئے ٹیکس کے باعث نجی تعلیمی ادارے ممکنہ طور پر یہ اضافی بوجھ عوام پر منتقل کریں گے۔ یہ ادارے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے فیسوں میں اضافہ کریں گے۔ اس سے والدین پر مزید مالی بوجھ پڑے گا جو پہلے ہی مہنگائی اور دیگر اقتصادی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال والدین کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گی، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور پہلے ہی اپنی مالی حالت سے پریشان ہیں۔

اب حکومتی سکولوں اور کالجوں کا معیار بہتر کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ صرف نجی اداروں پر ٹیکس لگا دینے سے حکومتی تعلیمی اداروں کی حالت بہتر نہیں ہو گی۔ اس کے بجائے حکومت کو اپنے تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے مناسب فنڈنگ، تربیت یافتہ اساتذہ اور بہتر تعلیمی مواد کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے۔ جب تک حکومتی تعلیمی ادارے معیاری تعلیم فراہم نہیں کرتے، نجی ادارے اس خلا کو پورا کرتے رہیں گے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اگر دیکھا جائے تو نجی تعلیمی ادارے عام طور پر وہ خلا پُر کرتے ہیں جو حکومتی تعلیمی نظام کی وجہ سے رہ جاتا ہے۔ مالی بوجھ ڈالنے سے ان پرائیویٹ اداروں کی کارکردگی متاثر ہوگی، جو بالآخر طلبہ کے تعلیمی معیار پر منفی اثر ڈالے گی۔ موجودہ حکومت کی جانب سے یہ فنانس بل نجی اداروں کی حوصلہ افزائی کی بجائے انہیں محدود کرنے کی کوشش ہے۔ نئے ٹیکس سے نجی تعلیمی اداروں کو چلانے کی لاگت میں اضافہ ہو گا جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب اس شعبہ میں کوئی انویسٹمنٹ نہیں کرے گا۔

ہونا تو چاہیے تھا کہ حکومت پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کرتی، انہیں حکومتی گرانٹ دی جاتی۔ غیر ملکی ادارے جس طرح حکومتی اداروں کو فنڈ دیتے ہیں اسی طرح حکومت اس میں پرائیویٹ اداروں کو بھی شامل کرتی اور یہ بات یقین سے کی جا سکتی ہے کہ یہ پرائیویٹ ادارے حکومتی اداروں سے بہتر کارکردگی دکھاتے مگر یہاں ان کے ساتھ زیادتی ہی کی جا رہی ہے۔

نئے ٹیکس سے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم مہنگی ہو جائے گی اور والدین کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی، جبکہ حکومتی تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے مطلوبہ اقدامات کی کمی کے باعث ان اداروں کی حالت جوں کی توں رہے گی۔

حکومت کی جانب سے ممبران پارلیمنٹ سمیت حکومت سے جڑے دیگر افراد کی تنخواہوں میں اضافے اور ان کو ملنی والی دیگر مراعات اب اسی ٹیکس سے وصول کی جائیں گی۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ حکومت تعلیم کی بہتری کے بجائے اپنی مراعات کو ترجیح دے رہی ہے۔

مجموعی طور پر خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں پر لگائے گئے ٹیکس کے اثرات منفی ہوں گے۔ والدین پر مالی بوجھ میں اضافہ ہو گا، نجی اداروں کی کارکردگی متاثر ہو گی اور تعلیمی معیار گر جائے گا۔ حکومتی تعلیمی اداروں کی حالت بہتر کرنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ صرف ٹیکس نافذ کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ بڑھ جائیں گے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔