5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی نیم مختار خصوصی حیثیت قرار دینے والے اپنے آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35 اے منسوخ کر دیے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے ریاست کے درجے ختم کرنے کے علاوہ لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا اور دونوں جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے تحت چلنے والے علاقے بنا دیے۔ مزید برآں، بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے سخت پابندیاں لگا کر پورے جموں کشمیر کو عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا، طالب علموں کے لیے تعلیم جاری رکھنا بند ہو گیا اور بیماروں کے لیے ہسپتال جانا بھی ناممکن بنا دیا گیا۔ اِس کے علاوہ بھارت نے کشمیریوں کو اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی بپتا سنانے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ کا کنکشن منقطع کر دیا۔ رتی برابر شک گذرنے پر مکینوں کو ان کے گھروں سے باہر نکال کر ان کے گھروں کو چشمِ زدن میں مسمار کیا جانا، جیلوں میں ٹھونسنا، سخت جسمانی سزائیں دے کر اپاہج بنانے اور شہید کرنے کا عمل پہلے سے تیز تر کر دیا۔
بھارت کے جابرانہ اقدام اور غاصبانہ قبضے سے آزاد و جموں کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے علاوہ ریاستِ پاکستان، جو کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتی ہے، کے عوام پر ایک اضطرابی کیفیت طاری ہو گئی۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں کی حکومتِ پاکستان سے اُمید تھی کہ اِس بار بھارت ظلم کی تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ اس لیے اس کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھانا پہلے کی نسبت اب زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ لہٰذا اِسے سفارتی میدان میں بہت جلد بدترین شکست سے دو چار کیا جائے گا اور پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارتی قبضے سے آزاد کروانے کے ساتھ ساتھ 1947 سے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے ستم رسیدہ کشمیریوں کو آزادی دلوائی جائے گی۔
عمران خان کی حکومت کشمیری اور پاکستانی عوام کی اُمیدوں پر کتنا پورا اُتری ہے؟ آیئے جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے ہم عمران احمد خان نیازی کی حکومت کے اُن عملی اقدامات کو دیکھتے ہیں، جو کشمیریوں کے حق میں کیے گئے ہیں:
1. قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے ہدایت کی تھی کہ تمام لوگ ہر جمعہ کے روز 12 بجے سے ساڑھے 12 بجے تک آدھا گھنٹہ کشمیر کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کھڑے ہوں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ "باکمال اظہار یکجہتی" ایک جمعہ کے بعد وزیرِ اعظم خود ہی ہمیشہ کے لیے بھول گئے۔
2. عمران خان نے فرمان جاری کیا تھا کہ پوری قوم کشمیر کے لیے متحد ہو جائے اور اس مسئلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو پارلیمنٹ تو دور کی بات ہے، اپوزیشن کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں آنجناب دُوسروں کا مؤقف سنے بغیر ہی اٹھ کر چل دیئے۔
3. اِس نقطہ نظر سے متفق ہونے یا نہ ہونے سے قطع تعلق ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہاں لکھنا ضروری ہے کہ عمران خان نے کشمیریوں کو واضح ہدایت دی تھی کہ جو بھی لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوششوں کا حصہ بنے گا، وہ دراصل کشمیر کاز سے دشمنی کا مرتکب ہو گا اور پھر حکومت نے اس پر عمل بھی کیا کہ جس کسی نے بھی لائن آف کنٹرول پار کرنے کی چھوٹی موٹی کوشش کی، اسے یا تو گرفتار کر لیا گیا یا ڈرا دھمکا کر واپس کر دیا گیا۔
4. عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک زبردست تقریر کی، جسے عوام میں کافی سراہا گیا۔ لیکن اس تقریر کے بعد عمران خان کی حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ دوسرے ممالک کو بھی پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں سمجھ کر عمران خان کی حکومت نے کسی سے کوئی خاص سفارتی رابطہ نہیں کیا تاکہ کشمیر کا مسئلہ اُجاگر کر کے حمایت حاصل کی جا سکے۔
5. وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے 4 اگست 2020 کو پاکستان کا 'نیا سیاسی نقشہ' جاری کیا ہے، جس میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے اس پر لکھا گیا ہے "انڈیا کے غیر قانونی قبضے میں جموں اور کشمیر" جبکہ ساتھ میں سرخ سیاہی میں درج کیا گیا ہے کہ "متنازع علاقہ، حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں ہونا ہے"۔
سب سے اہم بات ہے کہ یہ نقشہ اقوام متحدہ کی قرارداد 47 کے خلاف ہے، جس میں واضح لکھا ہے کہ " بھارت اور پاکستان کشمیر میں آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے لیے مناسب حالات پیدا کریں، تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ آزاد و جموں کشمیر ہندوستان اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں"۔
علاوہ ازیں، اس طرح کے اقدامات سے آپ بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں کر سکتے۔ کشمیر کے مسئلے کے حقیقی حل کے لیے ہمیں بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے بھرپور سفارتی کمپیئن، ورنہ نقشہ بازی سے خود کو خوش کرنے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ویسے ریاست جونا گڑھ کے بارے میں ہماری نقشہ بازی تاریخ کا حصہ ہے، جسے ہم 1971ء تک اپنے سیاسی نقشے میں پاکستان کا حصہ دکھاتے رہے ہیں، جس کا ذکر 1971ء کے بعد 4 اگست 2020ء تک نہ ہوا، جو ایک بار پھر نہایت اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک عمران احمد خان نیازی کی بدولت 'نئے سیاسی نقشے' میں نمودار ہو گیا ہے (سوچیے، جونا گڑھ پاکستان کے نقشے میں ڈال تو دیا گیا ہے لیکن اب یہ کسی ذلت کے بغیر نکلے گا کیسے؟)۔
یہاں صدرِ پاکستان عارف علوی کے تازہ فرمان کا ذکر نہ کرنا اِنتہائی زیادتی ہو گی، جس میں اُنھوں نے فرمایا ہے کہ یہ نقشہ اقوامِ متحدہ میں منظور ہو گیا تو مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ ہر ذی شعور پاکستانی اور کشمیری کو ادراک تو اب ہو گیا ہو گا کہ اِس حکومت میں اوپر سے لے کر نیچے تک نابغوں کا ایک ہجوم ہے، جو قوم کا مقدر سنوارنے کو ہزارہا امرت دھاری نسخے لیے تیار بیٹھا ہے۔
6. حکومت نے اسلام آباد کی شاہراہ کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے رکھ دیا ہے اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ ہائی وے ہمیں سری نگر لے جائے گی۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ اِس "دانش" پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔
ویسے دنیا کے عظیم ترین شمار کیے جانے والے فاتحین سکندر اعظم، جولیس سیزر، ہنی بال، بسمارک، ہٹلر، بایزید یلدرم، چنگیز خان، صلاح الدین ایوبی اور امیر تیمور لنگ بھی عجب گھامڑ تھے، جو ساری زندگی ذلیل و خوار ہوتے رہے لیکن کوڑھ مغزوں کے بھیجے میں یہ شارٹ کٹ نہ سمایا۔
7. حکومت نے کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے 5 اگست 2020ء کو یوم استحصال کشمیر منایا، ایک منٹ کی خاموش اختیاری کی اور ریلیاں نکالیں۔
سوال یہ ہے کہ اِس طرح کی گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی شوبازی سے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا اور محض بڑھکیں مارنے سے کشمیری عوام پر ظلم کی سیاہ رات ختم ہو جائے گی؟
8. سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان سابقہ بھارتی الیکشنز سے قبل نہ صرف بار بار نوید سنا رہے تھے کہ "مودی کی جیت سے مسئلہ کشمیر حل ہو گا"۔ بلکہ وہ کشمیر سے متعلق مودی کے کافی حد تک ہم خیال بھی ہیں، وزیرِ اعظم بننے سے قبل جس کا وہ اظہار کرتے ہوئے تجویز دے چکے ہیں:
" کشمیر کا بہترین حل تین حصوں میں تقسیم ہے، لداخ بھارت، گلگت بلتستان پاکستان کو دے دیا جائے۔ وادی اور آزاد کشمیر کو ملا کر تیسرا حصہ خود مختار کر دیا جائے۔" ( عمران خان کے انٹرویو کا اسکرین شاٹ آرٹیکل کے آخر میں دیکھا جا سکتا ہے۔)
اب ہم عمران احمد خان نیازی کی حکومت کے بھارت کے حق میں عملی اقدامات کا پوائنٹ وائز جائزہ لیتے ہیں:
1. بھارت کے جمُوں کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد جمع کرانے کے لیے کم از کم 16 ممالک کی حمایت کی ضرورت تھی لیکن پاکستانی حکومت کی لابنگ نے کشمیریوں اور پاکستانیوں کو تب شرمندہ کر دیا جب قراردار منظور تو بہت دُور کی بات، پاکستان اس قرارداد کو جمع کرانے کے لیے درکار کم سے کم ممالک کی حمایت کی شرط بھی پوری نہ کر سکا (حالانکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ ہمیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھارت کے خلاف قرارداد لانے کے لیے 58 ممالک کی حمایت حاصل ہے)۔
فقط 16 ممالک کی حمایت بھی حاصل نہ کرنے کے عملی اقدامات پاکستانی حکومت کی کس نیت کی غمازی کرتے ہیں حالانکہ اِن ممبران ممالک میں 10 اسلامی ممالک بھی شامل تھے؟
2. اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے کے لیے بھارت کو ووٹ بھی اِسی موجودہ حکومت نے دیا ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 5 اگست 2019ء پاکستانی قوم کے لیے یوم شرمندگی ہے اور بھارت جو کام پچھلے 72 سالوں میں نہیں کر سکا، اُس نے وہ کام پاکستان کی اس موجودہ حکومت کے دوران کیا ہے۔ یاوہ گوئیاں بھلے جتنی فرما لیں لیکن اب زمینی حقائق یہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر عملی طور پر بھارت میں شامل ہو گیا ہے۔
3. پاکستان پر حملہ کرنے والے بھارتی فائٹر پائلٹ ابھینندن ورتھامن کو جھٹ سے رہا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، حالانکہ ہم پاکستان پر بمباری کرنے والے بھارتی پائلٹ کے ذریعے بھارت کا گھناؤنا چہرہ بار بار دنیا کے سامنے پیش کر سکتے تھے۔ اجمل قصاب کے حوالے سے بھارت ہمارے ساتھ یہ کر چکا ہے۔
4. پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور ملک توڑنے کی سازشوں میں ملوث کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا سے بچانے کے لیے آئی سی جے (بین الاقوامی عدالتِ انصاف) کے فیصلے کی غلط تشریح کرنے، عوام اور پارلیمنٹ سے چھپ کر فردِ واحد اور وہ بھی دشمن ملک کے مجرم شہری کے لیے غیر قانونی آرڈیننس جاری کرنے، عدالت میں رحم کی اپیل کرنے اور اپنی طرف سے وکیل پیش کرنے کے کارنامے بھی یہی عمران خان کی حکومت سر انجام دے رہی ہے تاکہ اِس بھارتی جاسوس و دہشت گرد کو جلد سے جلد محفوظ طریقے سے بھارت کے حوالے کیا جا سکے۔
5. بھارت کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب اور مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کے لیے عمران خان کی حکومت نے ابھی تک کوئی ایک چھوٹی سی بھی سفارتی کامیابی حاصل نہیں کی۔ کامیابی حاصل نہ کر سکنے سے بڑی کوتاہی سرے سے کوشش نہ کرنا ہے۔ دنیا بھر میں بھاری بجٹ ہڑپ کرنے والے پاکستانی سفارت کاروں کو نہیں دیکھا گیا کہ وہ کشمیر کاز کے لیے دنیا کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہوں۔
عمران خان کی سفارتی "کامیابیوں" کی جھلک مسلم ممالک میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ اہم مسلم ممالک اپنے سب سے بڑے سویلین ایوارڈز بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو دے چکے ہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) میں بھارتی وزیرِ خارجہ کو بلایا جاتا ہے، جہاں وہ کسی روک ٹوک کے بغیر کھل کر پاکستان پر تنقید کر سکتی ہیں۔ اور حد یہ ہے مکہ ڈیکلریشن سے کشمیر کو نکال دیا جاتا ہے۔
عمران خان کی حکومت کے سفارتی میدان میں بھارت کے خلاف تاخیری حربے بھیانک نتائج کے حامل ہوں گے کیونکہ شُنید ہے کہ کشمیریوں کی عددی اکثریت کو تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ اقدامات شروع ہو گئے ہیں۔ غیر کشمیریوں کے لیے جائیداد خریدنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے سول سروس میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس وقت جمُوں کشمیر میں تمام اعلٰی سرکاری عہدوں پر غیر کشمیری ہندوؤں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ پانچ لاکھ ہندو و سکھ خاندانوں کو جموں کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے جا چکے ہیں۔ جن کی اکثریت آر ایس ایس کے غُنڈوں، جمُوں کشمیر میں تعینات رہنے والے سابقہ قاتل فوجی اور پولیس ملازمین پر مشتمل ہے۔ بھارت کا پلان ہے کہ اگلے تین سالوں میں 28 لاکھ ہندوؤں کو جمُوں کشمیر میں آباد کیا جائے۔ اِن عملی اقدامات سے نریندر مودی کے یہ اِرادے کھل کر سامنے آ چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کی طرز پر فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ مستقبل میں اقوام متحدہ کی قرارداد 96 کا تدارک کیا جا سکے جس میں کہا گیا ہے کہ " بھارت کشمیر سے اپنی افواج کو ہٹائے اور اقوام متحدہ کے اس اصول کو قبول کرے کہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کا تعین اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا"۔
یہ بات بھی آدمی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ عمران خان کی حکومت بھارت کی ہمسایہ ممالک سے لمحہ موجود کی کشیدگی کا فائدہ اُٹھانے سے کیوں کترا رہی ہے۔ اِس وقت لداخ میں بھارت کی ناکام یلغار کے بعد چین اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ چین کشمیر کے معاملے میں کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔ مزید برآں، چین نے ایران کے چاہ بہار سٹرٹیجک منصوبے سے بھارت کی چھٹی کرا دی ہے۔ دوسری طرف چین نے بنگلہ دیش کو اپنے دام میں ایسا پھنسایا ہے کہ بنگلا دیشی وزیرِ اعظم حسینہ واجد، جو ہمیشہ سے بھارت کا دم بھرتی آئیں ہیں، اب اُنھوں نے اپنی ساری ہمدردیاں چین کے کھاتے میں ڈال دی ہیں۔ مزید برآں، اِس وقت دوسرے ہمسایہ ممالک نیپال اور بھوٹان کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
ہم یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ عمران احمد خان نیازی کی حکومت کے مندرجہ بالا عملی اقدامات کا جائزہ لے کر خود فیصلہ کریں کہ عمران خان مظلوم کشمیریوں کے ہمدرد ہیں یا پھر اندرونِ کھاتے اپنے عالمی آقاؤں کے حکم پر یہ سب اقدامات غاصب بھارت کے حق میں کر رہے ہیں؟