11اگست اقلیتوں کا دن، 'پاکستان اقليتوں کے تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا'

11اگست اقلیتوں کا دن، 'پاکستان اقليتوں کے تحفظ کیلئے بنایا گیا تھا'
11 اگست پاکستان ميں اقليتوں کا قومی دن کے طور پہ منايا جاتا ہے۔

پاکستان کے لئے يہ دن اس لئے خصوصی اہميت کا حامل ہے کيونکہ يہاں بسنے والی مذہبی اقليتيں (ہندو، سکھ، مسيح، ديگر) اس ملک کی سياسی، سماجی اور معاشی حصہ دار بھی ہيں اور حق دار بھی۔

دوسرا، ہندوستان ميں مسلمان مذہبی اقليت کی حيثيت رکھتے تھے۔ جس کے نتيجے ميں پاکستان معرض وجود ميں آيا۔ گويا يہ اقليت کی بقا يقينی بنانے کا مؤجب اور موجد بنا۔

سبز و سفيد حلالی پرچم، آئين اور قانون اقليتی حقوق کی آئينہ دار ہيں۔ مگر امتيازی نصاب، مذہبی ہم آہنگی کی نفی، ناخواندگی اور لاعلمی کے نتيجے ميں پيدا ہونے والے معاشرتی رويے، سوچ کی گھٹن اور قدغن نے ان حقوق و فرائض کو پنپنے نہ ديا۔

اصولاً پاکستانی مسلمانوں سے زيادہ مذہبی اقليتوں کے حقوق کون سمجھ سکتا تھا جس کا وجود ہی اقليت کی جنگ کا نتيجہ تھا۔ مگر 75 سال گزرنے کے بعد بھی افسوس کہ سندھی ہندو “رام چندر” کو ہر روز يقين دھانی کروانی پڑتی ہے کہ وہ بھارتی نہيں بلکہ پاکستانی ہے۔

مسلمانوں کو ہندوستان ميں امتيازی سلوک کا سامنا رہتا تھا۔ مذہبی، سياسی، سماجی و معاشی دائرہ کار ميں اقليتی حثيت کی بنا پر ہونے والے جبر اور ناانصافی جب اپنے صبر کا دامن نہ تھام سکےتو الگ مملکت کا تصور جنم لينے لگا۔

تب کے معروضی حالات کے مطابق الگ مملکت سے مراد تھی جہاں اقليت ايسی جگہ منتقل ہو جائے جہاں انکے جان و مال، عزت آبرو، شخصی تشخص، مذہبی آزادی، نسلی آزادی، سماجی گروہ بندی (ذات پات)، معاشی و سماجی ترقی اور خوشحالی کو يقينی بنايا جائے۔

شاید ہی دورِ حاضر کی پاکستانی نوجوان نسل اس حقيقت سے واقفيت رکھتی ہو کہ پاکستان ميں بسنے والی مذہبی اقليتيں جنھيں آج ہم نچلے درجے کا سمجھتے ہيں قيام پاکستان ميں ان کا قليدی کردار ہے۔

پاکستان کو 1947 ميں دنيا کے نقشے پر ملکی شناخت دلوانے ميں غير مُسلم مذہبی اقليتيں بھی شامل تھيں۔

ديوان بہادر ايس پی سنگھا اور انکے دو قليدی ساتھی سی-ای-گبن اور فضل الہی جو کہ مسيح تھے انکا ذکر ناگزير ہے۔

1946 کے اليکشن مہم کے دوران آل انڈيا مسيح ايسوسی ايشن نے پاکستان کے حق ميں نعرے لگائے۔ اسی اليکشن کے نتيجہ ميں 1946 ميں ايس پی سنگھا متحدہ پنجاب اسمبلی کے سپيکر منتخب ہوئے اور 20 نومبر 1946 کو “جناح ہمارا ليڈر” کا اعلان کيا۔ جس کے جواب ميں قائداعظم محمد علی جناح نے کہا “ہم مسيح برادری کی حمايت اور قربانی کبھی فراموش نہيں کريں گے”

حتیٰ کہ ايس پی سنگھا نے اپنے ساتھيوں کے ساتھ ملکر پٹھان کوٹ اور گُرداس پور کے اضلاع کی مسيح برادری سے پاکستان کے حق ميں قرارداد دستخط کروائے اور 1947 کے ريڈ کلف ايوارڈ کے دوران فيروز پور کو بھی موجودہ پنجاب ميں شامل کرنے کی مہم چلائی۔

سکھ ليڈر ماسٹر تارہ سنگھ نے متحدہ پنجاب اسمبلی کے دروازے پر تلوار سے للکارا کہ “ پاکستان کا مطالبہ کرنے والے کو جان سے مار ديا جائے گا”، ايس پی سنگھا نے جوابی نعرہ لگايا “سينے پہ گولی کھائيں گے پاکستان بنائيں گے”۔

ہندوستان ميں مسيحی بدترين سماجی ناانصافی اور امتيازی سلوک کا شکار تھے۔ انہيں اچھوت (نچلی ذات) سمجھا جاتا تھا۔ ديہاتوں میں قبرستان بنانے کی اجازت نہ تھی حتٰی کہ کنويں سے پانی بھرنے پر بھی ممانعت تھی۔ ايس پی سنگھا کا خيال تھا کہ مسلمان مذہبی ہم آہنگی پر يقين رکھنے والے، ذات پات کی اونچ نيچ سے بالاتر ہو کر آزاد سر زمين پہ اقيليتوں کے تحفظ کو يقينی بنائيں گے۔ پاکستان بننے کے بعد مسلمان اقيليتوں کا درد سمجھيں گے۔

لہٰذا پنجاب کے بٹوارے کے وقت متحدہ پنجاب اسمبلی ميں رائے شماری ہوئی تو 88 ووٹ مسلم ليگ کے حق ميں گئے اور 88 ووٹ ہندوستان کے حق ميں۔ چار مسيحی فيصلہ کُن ووٹ تھے۔

ديوان بہادر ايس پی سنگھا، انکے ساتھی فضل الہی اور سی بی گبن نے اپنے ووٹ شديد دباؤ کے باوجود پاکستان کے حق ميں ديۓ اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ گونج اُٹھا۔

قائداعظم کی وفات کے بعد 1948 ميں پاکستان کی پنجاب اسمبلی نے ايس پی سنگھا کے خلاف مذہبی بنياد پہ تحريک عدم اعتمادکامياب کروائی اور اسپيکر کے عہدے سے دستبردار کروا ديا۔ ايس پی سنگھا کی وفات کے بعد انکی بيٹی اور بيوی نے اپنی بقيہ زندگی ہندوستان جا کر بسر کی۔

تاريخ جتنی بھی تلخ ہو ہميں کہيں سے تو مثبت قدم اٹھانا ہوتا ہے۔ گزشتہ دس سالوں ميں مسلم ليگ ن کے دور حکومت ميں حکومتی سطح پر چند قابل ذکر اقليتی حقوق کے تحفظ ميں اقدام اُٹھائے گئے۔ جو اقليتوں کو مرکزی دھارے سے جوڑنے ميں کارآمد ثابت ہوئے۔

حکومتی سطح پر “عيسائی” کا متبادل لقب “مسيح” قرار پايا۔ سرکاری نوکريوں ميں اقيليتوں کا %5 کوٹا مختص کيا گيا۔ جس کی سيٹيں تعليم یافتہ اقليتی نمائندے نہ ہونے کی بنا پر ضائع ہو جاتی تھيں۔ نتيجتاً اعلیٰ تعليمی اداروں ميں اقليتوں کا %2 کوٹا مختص کيا گيا۔

حاليہ سروے کے مُطابق 30 جامعات سے ملنے والے اعدادوشمار بتاتے ہيں کہ 906 مختص نشستوں ميں سے صرف 170 پر داخلے ہوئے اور 736 خالی پڑی ہيں کيونکہ اثعلی تعليم تک پہنچنے کے لئے بنيادی پرائمری تعليم ميں اندراج اور حاضری کو يقينی بنانا مقصود ہے۔ جسے حکومت بطور تجويز آگے بڑھا سکتی ہے۔

اقليتی طالب علموں کو ليپ ٹاپ سکيم کا حصہ بنايا۔ سکھ ميرج ايکٹ 2018 متعارف کروايا گيا جس کی نظير نہيں ملتی۔ ديوالی اور کرسمس کے تہوار سرکاری سطح پر منائے گئے۔ 1999 ميں کرتارپور کا آغاز کيا گيا جس کی تکميل حاليہ دور ميں ممکن بنی۔

تحفظِ حقوق اقليت کو اقوام متحدہ، يورپين يونين، ايس ڈی جيز، جی-8 پلس جيسے احداف سے بالاتر ہو کہ آئين، قانون، بين المزاہب ہم آہنگی، مساوات، انسانی حقوق، سماجی ہم آہنگی، نصابی آزادی، يکساں مواقع، بنيادی انسانی سوچ اور نظريے سے مثبت رويوں ميں ڈھالنا ہو گا۔

مصنفہ سیاست دان ہیں اور پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے رکن پنجاب اسمبلی رہ چکی ہیں۔