پاکستان کا انتظام عملی طور پر فوج کے سپرد کیا جا چکا؛ دی اکانومسٹ

فوج کی کمان سنبھالنے کے 9 ماہ بعد، عمران اور ان کے حامیوں سے جنگ میں فاتح ٹھہرے جنرل عاصم منیر مزید دخل اندازی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ وہ ایک نئی اقتصادی کونسل کے مدارالمہام ہیں اور خلیج کی ریاستوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر قائل کر رہے ہیں۔ ایک فوجی جرنیل کے لئے سدا سے افراتفری کے مارے پاکستان کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کا خیال پرکشش تو ہوگا۔

پاکستان کا انتظام عملی طور پر فوج کے سپرد کیا جا چکا؛ دی اکانومسٹ

پچاس میل اور پانچ سال؛ عمران خان کی سب سے بڑی فتح اور ان کے سیاسی کریئر کے بدترین دور کا درمیانی فاصلہ یہی ہے۔ اس مسافت کے ایک سرے پر اسلام آباد کا پارلیمنٹ ہاؤس ہے جہاں وہ اسمبلی واقع ہے جس نے انہیں 2018 میں وزیر اعظم منتخب کیا تھا اور اب 9 اگست کو اپنی مدت ختم کر کے تحلیل ہو چکی ہے اور اقتدار ایک نگران انتظامیہ کے حوالے کیا جانے والا ہے۔ دوسرے سرے پر صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کی وہ جیل ہے جہاں کرپشن کے الزامات ثابت ہونے کے بعد 5 اگست کو عمران خان 3 سال کے لئے قید ہو گئے ہیں۔

عمران خان بدعنوانی کے الزامات سے انکار کرتے ہیں اور انہوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے جو اب تک ناکام ثابت ہوئی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں ان پر لگائے جانے والے الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں مگر حکومت اس دعوے کی تردید کرتی ہے۔ سزا کا فیصلہ جس کے تحت ان پر پانچ سال کے لئے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، پاکستان کی طاقتور فوج کی اس مہم کا نکتہ انجام سمجھا جا سکتا ہے جس کا مقصد عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کو سیاسی میدان سے بے دخل کرنا تھا۔ یہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ آنے والے دور میں جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت بڑھے گی۔

توشہ خانہ کیس نے عمران خان کا دولت اور مراعات کے لئے لالچ بے نقاب کر دیا ہے حالانکہ عمران خان اپنے بارے میں ہمیشہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہیں پیسے اور مراعات کا کبھی لالچ نہیں رہا اور وہ تو کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ تاہم، انہیں سزا انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر سنائی گئی جن پر پاکستان میں کم ہی عمل کیا جاتا ہے اور یہی حقیقت عمران خان کے اصل جرم کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی پاکستان کی فوج کو للکارنا۔ ان سے پہلے کے کئی سیاست دانوں کی طرح عمران خان بھی اقتدار میں اس بنا پر آ سکے کیونکہ وہ ایک فوجی جرنیل کے مںظور نظر تھے۔ مگر بالآخر فوج ان کی سیاسی شعبدہ بازیوں اور پاکستان کی گرتی معیشت کو سہارا دے پانے کی عدم صلاحیت دیکھ کر ان سے اکتا گئی۔ اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں انہیں حکومت سے بے دخل کر دیا گیا۔

مگر اپنے بعض پیش روؤں کے برعکس عمران خان نے خاموشی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ ملک گیر مظاہروں میں انہوں نے فوجی جرنیلوں پر زبانی حملے شروع کر دیے اور دعویٰ کیا کہ نومبر 2022 میں ان پر جرنیلوں نے ایک قاتلانہ حملہ بھی کروایا۔ 9 مئی کو جب انہیں مختصر عرصے کے لئے گرفتار کیا گیا تو مختلف شہروں میں ان کے حامیوں نے فوجی تنصیبات پر دھاوا بول دیا۔ پاکستان کی فوج جس کے لئے اس قسم کے حملے خلاف معمول تھے، پی ٹی آئی کے اس اقدام پر سیخ پا ہو گئی۔ فوج نے عمران خان کی پارٹی کو توڑپھوڑ کر رکھ دیا اور ان کے کئی حامیوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا۔ بالآخر خود عمران خان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

سیاست سے عمران خان کی جبری بے دخلی مزید بڑے منصوبوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اپنے آخری دنوں میں وزیر اعظم شہباز شریف اور تعاون پر ہمہ وقت آمادہ ایک پارلیمان کی پشت پناہی کے ساتھ فوج نے پاکستان کے 'ہائبرڈ' نظام کو فیصلہ کن انداز میں اپنی منشا کے عین مطابق ڈھال لیا ہے۔ پارلیمان کی مدت ختم ہونے سے پہلے جو بیسیوں بل پارلیمنٹ میں پیش ہوئے، ان میں سے کئی مسلح افواج اور انٹیلی جنس اداروں کو لامحالہ نئے اختیارات سونپنے کے حوالے سے تھے جنہوں نے شہری حقوق کے کارکنان کے بھی کان کھڑے کیے ہیں۔ آنے والی نگران حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرنے اور بیرونی سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ لگتا ہے یہ بھی اپنی آئینی مدت یعنی 90 روز سے زیادہ قیام کرے گی۔ جس روز عمران خان کو گرفتار کیا گیا، اسی روز حکومت نے نئی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی۔ اب عام انتخابات سے قبل ضروری ہو گیا ہے کہ نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں۔ سبکدوش ہو چکے وزیر قانون نے اس پر کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے باعث انتخابات کو کم از کم 5 مہینوں تک تاخیر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت تک نگران حکومت فوج کے ہی رحم و کرم پر ہوگی۔

شہباز شریف کا فوج کو اس حد تک دخل اندازی کی اجازت دینا ملکی معاشی صورت حال کا تقاضا ہے۔ گذشتہ ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہنگامی معاہدے کے تحت شہباز شریف 3 ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور اسی سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹلا۔ مگر اس کی قیمت بہت بھاری ہے؛ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا، شرح سود اور ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا اور ان میں سے کوئی بھی اقدام ووٹرز کو خوش نہیں کر سکتا۔ انتخابات جتنی تاخیر سے ہوں گے، شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کو ان غیر مقبول فیصلوں سے دوری اختیار کرنے کو اتنا ہی وقت ملے گا۔

اس کے باوجود بھی شہباز شریف کے فیصلے خطرے سے خالی نہیں۔ فوج کی کمان سنبھالنے کے 9 ماہ بعد، عمران اور ان کے حامیوں سے جنگ میں فاتح ٹھہرے جنرل عاصم منیر مزید دخل اندازی پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ وہ ایک نئی اقتصادی کونسل کے مدارالمہام ہیں اور خلیج کی ریاستوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر قائل کر رہے ہیں جو پاکستان کو مالی امداد دے دے کر تھک چکی ہیں۔ سرمایہ کاری سے زیادہ آرمی چیف کی نظر شاید ان ممالک کی سیاسی حمایت حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں، 'ہم غالباً ایک نئے سیاسی انتظام کی جانب بڑھ رہے ہیں، ایک کنٹرولڈ جمہوریت جس میں اقتصادی ترقی کی آڑ میں شہری آزادیوں کو سلب کیا جا سکے گا'۔ ایک فوجی جرنیل کے لئے سدا سے افراتفری کے مارے پاکستان کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کا خیال پرکشش تو ہوگا۔

***

یہ تجزیہ برطانوی ہفتہ روزہ میگزین The Economist میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

دی اکانومسٹ ہفت روزہ برطانوی جریدہ ہے۔