سات دہائیاں گزر گئیں، اور ہم یہاں صاف پانی تک نہیں مہیا کر پا رہے

سات دہائیاں گزر گئیں، اور ہم یہاں صاف پانی تک نہیں مہیا کر پا رہے
پينے کے لئے صاف پانی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی اکثريت اس بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ملک کو معرض وجود میں آئے سات طویل عشرے گزرنے کے باوجود عوام کو صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ رہی سہی کسر کرپشن نے پوری کر دی ہے۔ پانی کی سکیموں اور فلٹریشن پلانٹس کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے کھا لیے جاتے ہیں۔ سکیمیں منظور کروا کر پیسے ہڑپ کر لیے جاتے ہيں۔ اشرافیہ کا طبقہ عوام کا خون چوس کر منرل واٹر کے مزے اڑاتا ہے جبکہ عوام گندا پانی پینے پر مجبور ہے۔ مضرصحت پانی پینے سے ہيپاٹائٹس جیسے موذی امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ہمارا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتيں عوام کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں خاموش ہیں۔ ذاتی مفاد اور اقتدار کے لئے دھرنے دیے جاتے ہیں مگر عوامی مسائل کے لئے کوئی گرمجوشی نہيں دکھائی جاتی۔ الیکشن کے قریب آتے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں مگر الیکشن کے بعد دعوے اور وعدے کرنے والے غائب ہو جاتے ہيں۔



عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پر لگنے کے بجائے اشرافیہ کی شاہ خرچیوں اور عياشیوں کی نذر ہو جاتا ہے اور بیچاری عوام وہیں کی وہيں رہ جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سکیموں اور پراجیکٹس کو منظوری، ٹينڈرز سے لے کر تکمیل کے مراحل تک عوام کے سامنے رکھا جائے۔ منصوبوں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے کسی بھی مرحلے کو خفیہ نہ رکھا جائے۔ میڈیا اور مقامی عمائدین کی مدد سے ہر منصوبے پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں شکایات کا مؤثر نظام وضع کیا جائے۔ ہر منصوبے اور سکیم کا غیر جانبدارانہ، آزادانہ اور شفاف آڈٹ بے حد ضروری ہے۔ آڈٹ رپورٹس مشتہر کروا کر عوام کے اعتراضات و شکایات طلب کرنا بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

سمندر، دریاؤں اور پانی کے ذخائر پر فلٹریشن پلانٹس لگا کر صاف پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر گندے پانی کی بھاپ بنا کر اور پھر اس بھاپ کو دوبارہ پانی کی شکل میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ جن علاقوں اور صحراؤں ميں پانی کی کمی ہے وہاں ہوا کی نمی سے پانی حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ فلٹريشن پلانٹس کی مؤثر و باقاعدہ دیکھ بھال اورمینٹیننس بھی ضروری ہے اور ساتھ ہی پانی کا معیار مسلسل چیک کرنا بھی بہت اہم ہے۔

نجی شعبے اور مخیر حضرات کی مدد بھی لی جا سکتی ہے۔ گاؤں کی سطح پر ٹیکس فری انڈسٹریئل زونز بنا کر سرمایہ داروں سے بھی مفاد عامہ کے کام کروائے جا سکتے ہيں۔

معزز قارئین، راقم متعدد قابل عمل تجاويز پیش کر سکتا ہے مگر مسائل کے حقیقی معنوں میں خاتمے کا انحصار ارباب اختیارکے عملی اقدامات پر ہے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں