پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی خوبصورت گریس ویلی میں آنے والا موسمِ سرما عمر حسین کے لئے پریشان کن ثابت ہوگا۔ خطے کے انتہائی شمال میں واقع ضلع نیلم کے اِس دور اُفتادہ مقام کے رہائشی، ساٹھ سالہ، حسین نے شدید برف باری دیکھی ہے جو زمین کو دو میٹر گہرائی تک برف کی دبیز تہ سے ڈھانپ دیتی ہے۔ بجلی تک کم رسائی کی وجہ سے بہت سے لوگ خود کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کے لئے درختوں کو کاٹتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 90 فیصد گھروں نے کم از کم جزوی طور پر کھانا پکانے کے لئے جلانے کی لکڑی کا استعمال کیا۔ جب کہ 75 فیصد سے زیادہ گھروں نے جلانے کی لکڑی اور جھاڑ جھنکاڑ سمیت دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی لکڑی کے مواد کا استعمال کیا۔
گریس ویلی ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جو اپنے دلکش مناظر کے لئے مشہور ہے لیکن یہاں کے سرسبز و شاداب جنگلات آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ 2022 کی ایک رپورٹ میں سیٹلائٹ تصاویر کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ 2000 سے 2020 تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جنگلات کا احاطہ 45.9 فیصد سے کم ہو کر 39.3 فیصد یا رقبہ کے لحاظ سے6،103 مربع کلومیٹر سے 5،226 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ مزید برآں، یہ جنگلاتی رقبہ تیزی سے کم ہوا ہے جو 2000 اور 2005 کے درمیان 45.9 فیصد سے کم ہو کر 45 فیصد رہ گیا۔ پھر 2010 تک کم ہو کر 42 فیصد رہ گیا ۔یہ وقت وہی ہے جب2005 میں کشمیر میں بڑے پیمانے پر زلزلہ آنے کے بعد تعمیر نو کا عمل شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد جنگلات کی کٹائی کی شرح سست ہوئی ہے لیکن یہ اب بھی بڑی تشویش کا باعث ہے۔
جلانے کی لکڑی اور سمگلنگ
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا تقریباً 42 فیصد حصہ ، جس کا کُل رقبہ 13,297 مربع کلومیٹر ہے۔ محکمہ جنگلات کے دائرہ اختیار میں ہے۔ لیکن یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں اختیارات کے معاملے میں یہاں کے رہنے والے لوگ حکام پر حاوی ہیں۔
دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیرِ جنگلات اکمل سرگلہ کا کہنا ہے کہ خطے کے 68 فیصد جنگلات نیلم میں پائے جاتے ہیں جہاں”42 ہزار خاندان” آباد ہیں۔ اِن میں سے ہر ایک خاندان کھانا پکانے اور خود کوگرم رکھنےکے لئے سالانہ دو درخت جلاتا ہے۔
لکڑی کی سمگلنگ (محصول ادا کئے بغیر ناجائز طور پر درآمد برآمد) خطے میں جنگلات کی کٹائی کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔ کشمیر میں جنگلات کے رقبے کی نگہداشت کے نگران اور اِس کے تحفّظ کے ذمہ دار انتظامی افسر میر نصیر نے دی تھرڈ پول کو بتاتے ہوئے کہا کہ “صنو بری درخت کی مہک دار، مضبوط، اور پائیدار لکڑی جودس ہزار پاکستانی روپے (33 امریکی ڈالر) فی مکعب فٹ میں فروخت ہوتی ہے۔ اِن سمگلرز کا خصوصی ہدف ہے۔ محکمہ جنگلات نے گزشتہ سال کے دوران کروڑوں روپے مالیت کی یہ قیمتی لکڑی ضبط کی ہے جسے سمگل کیا جا رہا تھا۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے نوجوانوں کے ایک گروپ نے پروٹیکشن فاریسٹ کمیٹی بنائی۔ اِس حوالے سے کمیٹی کے ایک اٹھائیس سالہ رکن راجہ رفاقت کا کہنا ہے کہ وہ سمگلروں کو ناکام بنانے میں تو کامیاب رہے لیکن مقامی لوگوں کو روکنا مشکل تھا۔ کمیٹی کے ایک اور رکن جو اپنا نام ظاہرنہیں کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ “ہمارے جنگلات کو پہنچنے والے نقصان کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم انہیں ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ہم اِسے ایندھن کے طور پر استعمال نہیں کریں گے تو ہماری زندگی ختم ہو جائے گی اور ہم اس علاقے میں نہیں رہ سکتے۔”
درختوں کی یہ بے دریغ کٹائی بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے دیکھنے میں آرہی ہے۔ ادارہِ شماریات پاکستان کے مطابق ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی آبادی 1981 اور 2017 کے درمیان دُگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے یعنی 20 لاکھ سے بڑھ کر 40 لاکھ سے بھی زائد ہو چکی ہے۔
آزاد جموں و کشمیر انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPAAJK) میں موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کے صلاح کار محمد رفیق خان دی تھرڈ پول کو بتاتے ہیں کہ “آبادی میں اس اضافے کی وجہ سے ہمارے جنگلات کم ہوئے ہیں۔ سٹیٹ آف انوائرنمنٹ کی رپورٹ کے مطابق، ہمارے گھنے جنگلات میں سے صرف 9.6 فیصد باقی رہ گئے ہیں جبکہ 11.4 فیصد جنگلات گھنے نہیں ہیں۔
بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور پانی کی کمی
نقشہ سازی کرنے والی 2022 کی رپورٹ کے مطابق، "جنگلات کے اِحاطے یا رقبے میں کمی زمین پر گرنے والی بارش اور برف کی مقدار کو کم کرسکتی ہے اور بارش کے فضائی نمونے کو تبدیل کر سکتی ہے۔”
EPAAJK کی سٹیٹ آف دی انوائرمنٹ کی 2018 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1962 اور 2013 کے درمیان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اوسط زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ کر 27 ڈگری سینٹی گریڈ ہو گیا۔ خان کا کہنا ہے کہ یہ جزوی طور پر جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ ایک نمایاں اضافہ ہے اور اگر یہ رجحان 2100 کے آخر تک جاری رہا تو درجہ حرارت میں مزید 3 سینٹی گریڈ اضافے کا خدشہ ہے اور اس طرح کے اضافے کے سنگین نتائج ہوں گے۔”
خواتین پر پڑنے والے بُرے اثرات
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جنگلات کی کٹائی نہ صرف قدرتی وسائل اور ماحول کو متاثر کرتی ہے بلکہ خطے میں خواتین کی زندگیوں کو بھی نمایاں طور پر متاثر کرتی ہے۔
انسانی حقوق کی ایک مقامی وکیل شازیہ لطیف کیانی نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ کھانا پکانے اور خود کوگرم رکھنے کے لئے جلانے کی لکڑی جمع کرنے کام عموماً خواتین کے سپرد کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے جنگلات کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے اِن عورتوں کو جلانے کی لکڑی جمع کرنے کے لئے مجبوراً اپنے گھروں سے کافی دور سفر کرنا پڑتا ہے جس سے اُنھیں تشدد اور استحصال کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ کیانی مزید کہتی ہیں کہ ” جلانے کی لکڑی جمع کرنے میں صرف ہونے والے وقت کا صاف مطلب یہی ہے کہ خواتین کو تعلیم، آمدنی پیدا کرنے والی سرگرمیوں اور اپنے اہل خانہ کی دیکھ بھال جیسے دیگر اھم کاموں کے لئے کم وقت ملتا ہے۔
انسانوں اور جنگلی حیات کے مابین تنازعات بڑھ رہے ہیں
یہاں درختوں کا صفایا کرنے کا ایک اور نتیجہ جانوروں کے قدرتی ٹھکانوں کا سکڑنا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں اس خطے میں انسانوں اور جنگلی حیات کے مابین تنازع میں اضافہ ہوا ہے۔
”پریشان کُن امر یہ ہے کہ صرف پچھلے چار برسوں (2019-2022) میں مقامی آبادیوں نے اِس علاقے میں عام پائے جانے والے اِکیس تیندوے مار ڈالے جو کہ ایک بڑھتے ہوئے تشویش ناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ سال 2014 سے 2022 کے درمیان اِن تیندووں نے تین سو سے زیادہ مویشیوں کو ہلاک کیا۔ اس کے علاوہ تیندووں کے حملوں سے علاقے میں پانچ انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور سات افراد زخمی ہوئے۔
توانائی کے متبادل ذرائع موجود نہیں ہیں
کشمیر میں جنگلات کے تحفّظ کے نگران افسر نصیر کا کہنا ہے کہ جنگل کے وسائل پر دباؤ کا ایک آسان حل یہ ہے کہ لوگوں کے پاس توانائی کے متبادل ذرائع ہوں، اور ساتھ ہی اِنھیں خود کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کی ضروریات کے لئے لکڑی کے متبادل ذرائع بھی ہوں۔ وزیر جنگلات، سرگلہ بھی اس بات سے متّفق ہیں۔
“لوگ خود کو سردی سے بچانے کے لئے نا چاہتے ہوئے بھی مجبوراً غیر قانونی طور پر جنگلات کاٹتے ہیں۔ یہ پچھلے 73 سالوں سے ہو رہا ہے۔” سرگلہ کہتے ہیں کہ “میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم متبادل ایندھن کے ذرائع یا مٹی کے تیل کے ذریعے کم قیمت بجلی فراہم نہیں کرتے ہیں تو اگلے 20 سے 30 سالوں میں ہمارے جنگلات ختم ہو جائیں گے۔”