Get Alerts

سوات؛ بے دریغ کٹائی اور آتشزدگی سے جنگلات میدانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں

سوات؛ بے دریغ کٹائی اور آتشزدگی سے جنگلات میدانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مختلف بالائی علاقوں میں جنگلات میدانوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے عملے کی ملی بھگت سے جنگلات کو ایک عام گھاس یا فصل کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ اب سوات کے مختلف علاقوں میں محکمہ جنگلات کے اعداد و شمار کے مطابق 15 ہیکٹرز زمین سے جنگلات کی کٹائی کی جا چکی ہے۔

موسم سرما میں لکڑیوں کی مانگ میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ ہی گھنے جنگلات سے دیار، چیتر اور چنار سمیت دیگر قیمتی و نایاب لکڑیاں اور درخت کاٹ کر بڑی کیبن ڈاٹسن اور ٹرکوں میں لاد کر روزانہ کی بنیاد پر گھروں میں جلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور کچھ لوگ ہرے بھرے درختوں کو کاٹ کر قریبی دکانوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تعلق رکھنے والے خریدار فضل کریم بتاتے ہیں کہ بالائی علاقوں میں زیادہ تر لوگ لکڑیاں کاٹ کر گھروں میں استعمال کرتے ہیں لیکن کچھ لوگ یہاں فروخت کرنے کے لئے بھی لے آتے ہیں۔ یہاں پر ہم ایک من لکڑی 600 سے لے کر 800 روپے تک میں فروخت کرتے ہیں لیکن جب ہم خریدتے ہیں تو ہم لکڑیوں کی نوعیت کو دیکھتے ہیں۔ کسی سے ہم 300 اور کسی سے 400 روپے میں خریدتے ہیں۔

فضل کریم کے مطابق لکڑیاں فروخت کرنے والوں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر بالائی اور پہاڑی علاقوں میں نوجوان بے روزگار ہوتے ہیں تو وہ جنگلات سے لکڑیاں کاٹ کر یہاں لے کر آتے ہیں۔ ان میں پاڑ، نختر، چنار، توت، بیھکانہ اور سفیدی کی درختوں کی لکڑیاں شامل ہوتی ہیں لیکن یہاں ہم ہر قسم کی لکڑیوں کا ایک ہی ریٹ لگاتے ہیں۔

زمین کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین آلودگی سے بچاؤ کے لئے زیادہ سے زیادہ درخت اور پودے لگانے پر زور دے رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے سوات سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں شہری جنگلات کی کٹائی میں لگے ہوئے ہیں۔

پاکستان کا شمار ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں موحولیاتی آلودگی نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی کا ایک اہم سبب درختوں کی بے دریغ کٹائی ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے گاؤں اور ٹمبر مافیا

سوات کی تحصیل مٹہ میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ بڑے پیمانے پر درخت کاٹ کر لکڑی سمگل کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن محکمہ جنگلات کے حکام تاحال کٹائی کی تردید کرتے ہیں۔ تاہم پروفیسر شہاں جہان (فرضی نام) کے مطابق 12 نومبر 2022 میں سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقہ سلاتنڑ چنکا رئی کے جنگلات میں کھلے عام قیمتی درختوں کی بے دریغ کٹائی کی گئی ہے۔ کمپارٹ نمبر 21 اور 22 میں کھلے عام کٹائی کی جا رہی تھی۔

ٹمبر مافیا جنگلات کی کٹائی کر کے سلیپرران اور لکڑی کو فروخت کرنے میں مصروف ہیں مگر فاریسٹ اہلکار خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی فاریسٹ آفیسر ایس ڈی ایف او ہمایوں خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جنگلات کی کٹائی کی سختی سے تردید کر دی اور مؤقف اختیار کیا کہ علاقے میں کسی قسم کی قانونی یا غیر قانونی کٹائی نہیں کی جا رہی ہے۔

تحصیل مٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالبصیر نے ہمیں بتایا کہ متعدد مرتبہ محکمہ جنگلات کے ضلعی افسران، ضلعی انتظامیہ اور علاقے کے ذمہ داروں کو درختوں کی بے دریغ کٹائی کے حوالے سے فون اور واٹس ایپ میسجز کے ذریعے سے آگاہ کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے ابھی تک انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مابین گٹھ جوڑ ہے۔

مقامی شہریوں نے بتایا ہے کہ ایک طرف سابق وزیراعظم عمران خان درخت لگانے کے لئے دن رات مہم جاری رکھے ہوئے تھے تو دوسری طرف اس وقت بھی سرسبز و شاداب درختوں کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ نہیں رکا۔ جنگلات کے تحفظ کے لئے بہت سے مؤثر قوانین کی کمی ہے جس کی وجہ سے ٹمبر مافیا روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے اور قانون کمزور سے کمزور۔

سیلاب اور بلین ٹری سونامی

سوات سمیت خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات آنے کے بعد ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت یا عوام احتیاطی تدابیر اختیار کر لیتے تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے ہر آفت کے بعد ہم بیدار نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہمیں ہر بار نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں دریائے سوات کا سیلابی ریلا بلین ٹری سونامی کا ایک حصہ اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ سوات کے مختلف علاقوں جیسے کالام، بحرین، مدین، اشو، مٹلتان، مہوڈنڈ، چیل، گبین اور تحصیل مٹہ کے مختلف علاقوں میں سیلاب سے 512 کے قریب قیمتی اور نایاب کے ساتھ ساتھ 12 ہزار تک پودے بہہ گئے ہیں۔ حالیہ سیلاب میں دریائے سوات کا بہاؤ دو لاکھ 43 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا تھا جو 2010 کے سیلاب سے دوگنا تھا۔

جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات

سیلاب سے قبل سوات کے جنگلات میں آتشزدگی نے ہر ایک کو خوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ مختلف تحصیلوں میں آگ لگنے سے جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔

سوات کے مختلف علاقوں جیسے رحیم آباد مینگورہ، پٹھانے، کوزہ بانڈی، سیگرام، بریکوٹ، ابوہا، چارباغ، کبل، مالم جبہ، سیرتلی گرام، منگلور، مرغزار، کوکارئی، جامبل، پانڑ، رحمان آباد، کانجو، ٹاؤن شپ سمیت درجنوں مقامات پر آگ لگ گئی تھی جس کو بجھانے کے عمل میں ریسکیو اہلکار، مقامی لوگ، پولیس اور پاک فوج نے بھرپور حصہ لیا تھا اور ہزاروں درختوں کو بروقت کارروائی سے بچا لیا تھا۔

ضلعی انتظامیہ سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق آتشزدگی سے 440 ہیکٹرز جنگلات کو نقصان پہنچا ہے اور مختلف علاقوں میں 22 واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان میں صرف تین واقعات سرکاری جنگلات میں ہوئے باقی تمام واقعات شاملت کے جنگل یا لوگوں کی ذاتی ملکیت والے جنگل میں ہوئے تھے۔

مقامی شہریوں کا حکومت اور انتظامیہ سے ایک ہی مطالبہ تھا کہ مجرموں کو پکڑ کر سخت سے سخت سزا دی جائے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر آگ لگائی تھی۔ جنگلات کو آگ لگانے والے 40 کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں سے 20 افراد کے خلاف باقاعدہ مقدمات درج ہوئے اور ان کو عدالت کے تحت سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔

بلین ٹری پراجیکٹ اور سرکاری اعداد و شمار

محکمہ جنگلات سوات سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق سوات ڈویژن میں بلین ٹری پراجیکٹ میں 1 کروڑ 3 لاکھ 75 ہزار (10،375،000) درخت لگائے گئے ہیں۔ سال 2020 سے لے کر 2022 تک سوات فاریسٹ ڈویژن میں صرف 1477 درخت غیر قانونی طورپر کاٹے گئے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے مطابق جنگلات میں آتشزدگی سے صرف 471 درخت جل گئے ہیں۔ غیر قانونی طورپر سال 2020 سے لے کر 2022 تک جنگلات میں کٹائی کرنے والے 23 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کو قانونی طورپر سزائیں بھی دی گئی ہیں۔ جبکہ ان دو سالوں میں کرائم ایکٹ کے تحت 1694 افراد کو سزائیں سنائی گئی ییں۔

سوات کے جنگلات اور تحقیقی ماہرین

پروفیسر نفیس سوات کے جنگلات پر سال 1993 سے کام کر رہے ہیں۔ ان کی ریسرج کے مطابق سال 1993 سے لے کر 2003 تک سوات میں آگ لگنے کے 20 واقعات ہوئے تھے جن میں 3 واقعات عالمی سطح کی بڑی آگ کے سمجھے جا سکتے ہیں۔

پروفیسر نفیس کے مطابق عالمی سطح کی بڑی آگ کا مطلب ہے کہ سوات میں گزرتے دن کے ساتھ مختلف مقامات پر لوگ لکڑیاں جمع کرنے کے لئے آگ لگاتے ہیں اور کہیں پر لوگ گھاس کو جلانے کے لئے بھی یہ طریقہ کار اپناتے ہیں۔ یہ عموماً ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار آگ خطرناک حد تک بھڑک اٹھتی ہے جس سے قیمتی جنگلات سمیت چرند پرند کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور یہ واقعات بین الاقوامی میڈیا میں بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔ ان تمام واقعات میں آگ مقامی افراد نے خود لگائی تھی۔ کئی لوگ پکڑے بھی گئے تھے مگر صرف ایک مجرم کو چار ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی۔

ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر سوات کا مؤقف

سوات میں جنگلات کی کٹائی اور آتشزدگی پر ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر محمد وسیم نے ہمیں بتایا کہ جنگلات میں کٹائی اور آتشزدگی کے بعد ہماری ٹیمیں تفتیش کرتی ہیں اور ہم نا صرف ملزمان کو گرفتار کرتے ہیں بلکہ ایک مکمل رپورٹ بھی تیار کرکے عدالت میں پیش کرتے ہیں اور ماضی میں کئی مجرمان نے سزا اور جرمانے بھی بھگتے ہیں۔

محمد وسیم بتاتے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی کے نقصانات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور مٹی کے کٹاؤ کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات کی رہائش گاہوں کی تباہی اور پودوں سمیت جانوروں کے حیاتیاتی تنوع کا ضیاع شامل ہیں۔

جنگلات میں آگ کیوں لگائی جاتی ہے؟

محمکہ جنگلات سوات کے مطابق جنگلات پر انحصار کرنے والی کمیونیٹیز روایتی طور پر مویشیوں کے لئے گھاس حاصل کرنے کے لئے خشک گھاس کو جلا دیتی ہیں جبکہ زمینوں کو صاف کرنے کے لئے بھی آگ لگائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بعض اوقات غیر ذمہ دارانہ اور تیز ہواؤں کی وجہ سے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔

آتشزدگی کے واقعات اور آڈٹ رپورٹ

خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ نے بلین ٹری سونامی منصوبے کی شفافیت پرسوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق رواں سال خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آگ لگنے کے 358 واقعات سامنے آئے جن میں 313 زمینی، 34 سطحی اور شاخ دار یا چوٹی دار واقعات شامل ہیں۔

دستاویز کے مطابق 43 فیصد آگ کے واقعات نجی جنگلات سے رپورٹ ہوئے جبکہ 26 اعشاریہ 9 فیصد واقعات محفوظ جنگلات سے سامنے آئے۔ اسی طرح 13 فیصد عوامی جنگلات، 7 اعشاریہ 8 فیصد ممنوعہ جنگلات اور 6 اعشاریہ 3 فیصد واقعات گزارہ جنگلات سے رپورٹ ہوئے ہیں۔

محکمہ جنگلات کے مطابق ممنوعہ جنگلات کی زمین اور درخت دونوں حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ گزارہ جنگلات میں زمین اور درخت دونوں لوگوں کی ملکیت ہوتے ہیں تاہم انتظام و انصرام کی ذمہ داری محکمہ جنگلات کے پاس ہوتی ہے جبکہ عوامی جنگلات قوم کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔

محکمہ جنگلات کی طرف سے جاری کردہ معلومات کے مطابق آگ لگنے کے واقعات سے بلین ٹری منصوبے کا 436 ہیکڑ رقبہ بھی متاثر ہوا جو 1 ہزار 77 ایکڑ، 8 ہزار 619 کنال یا پھر 1 لاکھ 72 ہزار 380 مرلہ رقبہ بنتا ہے۔

بلین ٹری سونامی کی شفافیت

ایک طرف جنگلات میں آگ لگنے کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے بلین ٹری سونامی منصوبے میں بے قاعدگیاں بھی سامنے آئی ہیں۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 3 سالہ خصوصی رپورٹ میں منصوبے میں 3 ارب 49 کروڑ 35 لاکھ روپے سے زیادہ کی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا گیا ہے۔

جنگلات کی کٹائی اور وزیر اعلیٰ کا دوٹوک مؤقف

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے حالیہ دورہ سوات کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے بتایا کہ درختوں کی کٹائی کے خلاف صوبائی حکومت کی مسلسل اور واضح ہدایات کے باوجود درختوں کی کٹائی ناقابل برداشت فعل ہے۔ سوات سمیت مختلف اضلاع میں درختوں کی کٹائی پر پابندی کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

وزیر اعلیٰ محمود خان کے مطابق جنگلات کی کٹائی میں مزید غفلت برداشت نہیں کی جائے گی اور غفلت کے مرتکب ذمہ داران کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

خیبر پختونخوا میں آگ لگنے کے واقعات اور نقصانات

دستاویز کے مطابق آگ کی وجہ سے مجموعی طور پر 18 ہزار 795 ایکڑ زمین متاثر ہوئی۔ جس میں نجی جنگلات کی 6 ہزار 315 ایکڑ (33 اعشاریہ 61 فیصد)، عوامی جنگلات کی 6 ہزار 301 ایکڑ (33 اعشاریہ 53 فیصد)، محفوظ جنگلات کی 2 ہزار 880 ایکڑ (15 اعشاریہ 32 فیصد)، ممنوعہ جنگلات کی 2 ہزار 472 ایکڑ (13 اعشاریہ 15 فیصد) اور گزارہ جنگلات کی 824 ایکڑ (4 اعشاریہ 30 فیصد) زمین متاثر ہوئی ہے۔

مجموعی طور پر 358 واقعات میں 38 (10 اعشاریہ 5 فیصد) قدرتی وجوہات کی بنا پر پیش آئے جبکہ 64 (18 فیصد) واقعات لوگوں کے آگ لگانے کی وجہ سے سامنے آئے، جس میں تفریحی مقصد کے لئے جنگلوں میں آنے والے سیاحوں کا غیر دانستہ طور پر آگ کا سبب بننا بھی شامل ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات کو 256 (71 اعشاریہ 5 فیصد) واقعات کی وجوہات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

جنگلات کی حفاظت کیوں ضروری ہے؟

ماہر ماحولیات ڈاکٹر اکبر زیب نے بتایا کہ 2010 کے بعد ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث سوات سے متعدد نایاب پرندے بھی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ پہلے طالبان اور پھر ان سے علاقہ کلیئر کروانے کے لئے فوجی آپریشن نیز سیلاب اور زلزلوں نے پرندوں کو سوات سے نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے جب کہ تین ماہ قبل 60 سے زائد مختلف جنگلات میں آتشزدگی کے باعث سینکڑوں چرند پرند متاثر ہوئے ہیں۔

اکبر زیب کے مطابق جنگلات سے دو ارب سے زیادہ افراد اپنی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پناہ گاہیں، روزگار، پانی، خوراک اور دیگر سینکڑوں چیزوں کی حفاظت کرتے ہیں لیکن ہم امید کر سکتے ہیں کہ ماہر ماحولیات، تعلیم، کسان، زمین دار، نجی شعبہ جات اور سب سے بڑھ کر حکومت جنگلات کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کریں گے تاکہ مستقبل میں آنے والے خطرات سے محفوظ ہوں۔

شہزاد نوید پچھلے پانچ سال سے خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے کام کر رہے ہیں۔