بالآخر آج اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت منظور کر لی۔
پہلے بھی مختلف ادوار میں سابق صدر پاکستان و ممبر قومی اسمبلی آصف علی زرداری نے بنا سزا کے گیارہ سال جیل کاٹی ہے، 10 جون 2019 سے گرفتار آصف علی زرداری تقریباً 180 روز سے نینشل اکاؤنٹیبلیٹی بیورو (نیب) کی تحویل یا جوڈیشل کسٹڈی میں رہے۔ ابتدا میں آصف علی زرداری پر نیب نے 1400 ارب کی کرپشن اور جعلی بنک اکاؤنٹس کے الزامات لگائے، اب محض ڈیڑھ کروڑ کے الزامات کے تحت نیب کی تحقیقات کا سامنا کر رہے ہیں، جس کا آج تک حتمی چالان بھی پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ تحقیقات کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔
نیب کا موجودہ قانون سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف لائے، جس کا مقصد تھا کہ سیاست کو گندہ کیا جائے، اپنی مرضی کی جماعتیں بنائی جا سکیں، اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کے لئے ان قوانین کو استعمال کیا جا سکے۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی مختلف طریقوں سے نیب کو اسی طرح مخالفین کے خلاف آزمایا گیا، لیکن جب بات نہ بنی تو نیب کو دباؤ میں لایا گیا۔ نیب میں من پسند افراد کی بھرتیاں کی گئیں، اس کے باوجود بھی نیب وہ نتائج نہیں دے سکا جو چاہیے تھے۔
پھر اچانک ایک ویڈیو آئی اور وہ بھی ایک ایسے چینل نے آن ایئر کی جس کے مالک اہم حکومتی عہدے پر تعینات تھے، بعدازاں انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اس ویڈیو کی تحقیقات کا اعلان ہوا جو تحقیقات آج تک شروع نہیں ہو سکیں۔ البتہ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں میں تیزی آ گئی۔
ابھی تک آصف علی زرداری کے خلاف تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں، ان پر آج تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے، حالانکہ آصف علی زرداری ساڑھے گیارہ سال بنا سزا کے جیل کاٹ چکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کا شاید یہ پہلا کیس ہے جو وقوع پذیر ایک صوبے میں ہوا، گواہان کا تعلق بھی اسے صوبے سے ہے لیکن کیس دوسرے صوبے میں چل رہا ہے۔ نامزد ملزم دوسرے صوبے میں جیل کاٹ رہا۔ حالانکہ وہ کہیں بھاگ نہیں رہا ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے۔ نہ ہی وہ کسی اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز ہے کہ وہ کسی ریکارڈ میں ردوبدل کر سکے۔
اسیری کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری کی صحت مسلسل گرتی چلی گئی، انہیں جیل میں اپنے خرچ پر ذیابیطس کو کنٹرول کرنے والی ادویات انسولین رکھنے کے لئے فرج تک رکھنے کی سہولت سے محروم رکھا گیا، انہیں عام قیدیوں کی طرح قید تنہائی میں رکھا گیا، طبیعت مزید بگڑنے پر سرکاری ڈاکٹرز کی ہدایت پر انہیں سرکاری ہسپتال میں داخل کیا گیا، آصف علی زرداری کی صحت بارے پارٹی کے اندر کافی تشویش پائی جاتی تھی، اس کے علاوہ سابق صدر کے بچوں چیئرمین پیپلز پارٹی محترم بلاول بھٹو زرداری، بی بی بختاور بھٹو زرداری اور بی بی آصفہ بھٹو زرداری نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا، لیکن آصف علی زرداری حکومت سے کسی بھی قسم کا ریلیف یا ضمانت کی درخواست کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ حکومت کو اپنا شوق پورا کرنے دیں، میں حکومت کے آگے ضمانت کی بھیک نہیں مانگوں گا۔
بچوں کے مسلسل اصرار پر سابق صدر آصف علی زرداری ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست داخل کرنے پر راضی ہوئے، معزز عدالت نے میڈیکل بورڈ بنانے کا فیصلہ کیا، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ آنے پر آج عدالت عالیہ نے 10 جون 2019 سے گرفتار سابق صدر آصف علی زرداری کی 6 ماہ کے بعد ضمانت منظور کر لی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن ممبر صوبائی اسمبلی فریال تالپور کی ضمانت پر سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔
امید ہے کہ معزز عدالت محترمہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں بھی ضمانت پر رہا کر دیں گی، کیونکہ ان پر بنائے گئے کیسز سیاسی مخالفت کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں۔