پاکستان میں طاقت کے مراکز مقدس بن جاتے ہیں اور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں

اکیسویں صدی کے پاکستان میں لاقانونیت کا ایک مظہر وکلا گردی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے پاکستان میں عدالتوں نے کبھی قانون کی حکمرانی کے حوالے سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے ہر بڑی آئین شکنی کو جواز فراہم کیا ہے۔ وکلا بھی اسی عدالتی نظام کا جزو ہیں۔ اور آج اسی وجہ سے پاکستانی عوام حیران و پریشان ہے کہ وہ طبقہ جس نے عوام کے لئے انصاف کے حصول میں مدد کرنی ہے، وہ دہشتگردی کی طرف کیوں مائل ہو گیا ہے۔

آج کی کہانی کے ڈانڈے وکلا تحریک سے جا ملتے ہیں جب 2007 میں جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لئے وکلا نے ایک تحریک کا آغاز کیا۔ پاکستان بھر میں تمام وکلا تنظیموں نے جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف ایک شاندار تحریک شروع کی اور اس وقت یوں لگا کہ شاید پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا خواب پورا ہو سکے گا۔ لیکن چند ہی ماہ میں وکلا کی پرامن تحریک میں تشدد کا عنصر شامل ہو گیا۔ یہ بات سچ ہے کہ ریاست نے اس تحریک کو کچلنے کی ایک کوشش کی اور اس تنازع میں وکلا کو تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

https://www.youtube.com/watch?v=VCmmUK7-788

لیکن ہم نے دیکھا کہ 2007 اور 2009 کے درمیان قانون کے رکھوالوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دیا۔ چاہے وہ پولیس کے اہلکار ہوں یا میڈیا کے نمائندے، وکلا نے مار کٹائی اور اپنی اس سیاسی قوت کا جو انہوں نے اس تحریک کے دوران ہی دریافت کی تھی، نہ صرف بھرپور مظاہرہ کیا بلکہ اس کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا۔ یہ وہ دور تھا جب برطرف شدہ ججوں کو وکلا کی سیاسی حمایت کی ضرورت تھی اور جنرل مشرف کے حامی ججوں کو ان سے خوف آتا تھا۔

اس کشمکش میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا جس میں وکلا نے خود ہی اپنے گروہ کو ایک مقدس گائے کا درجہ دے دیا۔ پاکستان میں طاقت کے مراکز مقدس بن جاتے ہیں اور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی حال کچھ ہمارے وکلا کا بھی ہے۔ جب 2009 میں سیاسی تحریک کے ذریعے بحال ہوئے اور اس وقت اس تحریک کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی، تو وکلا نے اپنی توپوں کا رخ عدلیہ کی جانب موڑ دیا۔

سب سے پہلے اس نئی طاقت کی زد میں ماتحت عدلیہ آئی۔ اور سول اور سیشن ججوں کی پاکستان بھر میں شامت آ گئی۔ جب کسی وکیل کا معاملہ ایک آزاد اور غیر جانبدار جج کے سامنے آتا تو اس کے اوپر باقاعدہ حملے شروع ہو جاتے تھے۔ یہاں تک کہ کئی ججوں کو تشدد سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو عدالتوں سے ملحقہ غسل خانوں میں پناہ لینی پڑی اور کچھ کی تو باقاعدہ پٹائی بھی ہوئی۔ اسی طرح محکمہ مال کے افسران اور مجسٹریٹ بھی وکلا کی زد میں بارہا آئے۔ میڈیا نے یہ سب کچھ رپورٹ کیا۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی کہ ایسے پرتشدد وکلا کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ لیکن بدقسمتی سے قانون نافذ کرنے والے ادارے جو طاقتور گروہوں سے ڈرتے ہیں، کچھ نہ کر پائے۔ یہ اور معاملہ ہے کہ وکلا اور ججوں کی تحریک نے بھی انصاف کے حصول میں عوام کی کوئی مدد نہ کی۔ بلکہ اعلیٰ عدلیہ سے لے کر ماتحت عدالتوں کے مسائل جوں کے توں رہے۔

البتہ یہ ضرور ہوا کہ ججوں نے حکومتی معاملات میں مداخلت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ جسٹس افتخار چودھری نے نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہر قدم پر تنگ کیا بلکہ ان کا وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ہی فارغ کر ڈالا۔ اس بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے تناظر میں 2017 میں لاہور ہائی کورٹ نے ملتان ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کے صدر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تو وکلا نے پھر سے لاہور ہائی کورٹ پر دھاوا بول دیا۔ شیر زمان قریشی پر الزام تھا کہ انہوں نے جولائی 2017 میں جسٹس محمد قاسم خان کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دیں۔ یہ معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا۔ اس سے قبل لاہور کے ایک وکیل صاحب کے گھر کام کرنے والی ایک ننھی بچی شازیہ مسیح مالکان کے تشدد سے جاں بحق ہو گئی۔ جب اس 12 سالہ بچی کے انصاف کے لئے آواز اٹھی تو کچھ ریاستی کارروائی ہوئی لیکن اس وقت بھی ہم نے دیکھا کہ وکلا نے اپنے پیٹی بھائی کا ساتھ دیا اور انصاف کے حصول میں رکاوٹیں ڈالیں۔ کاش کہ اس بدترین واقے کے بعد اگر اعلیٰ عدالتیں کارروائی کر دیتیں تو شاید وکلا گردی میں کچھ کمی واقع ہو جاتی۔

1970 کی دہائی میں وکلا کا احتساب اعلیٰ عدالتوں سے وکلا تنظیموں کے پاس آ گیا اور اس وقت سے آج تک شاذ ہی وکلا تنظیمیں کسی وکیل کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ آپ کسی سائل سے پوچھ لیجئے تو آپ کو وکلا کے misconduct کے بارے میں بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔

دوسرا بڑا مسئلہ قانون کی ڈگریوں کی خرید و فروخت کا ہے۔ Legal education کی نگرانی بھی بار کونسلز کے ذمے ہے اور انہوں نے اس کے اوپر کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ اور آج آپ کو جابجا پرائیویٹ لا کالجز دکھائی دیں گے جن کا معیار انتہائی ناقص ہے اور وہ فیسوں کے عوض قانون کی ڈگری نوجوانوں کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں بار کا امتحان مشکل ترین امتحان تصور کیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں اس کے برعکس تقریباً سبھی کو لائسنس مل جاتا ہے۔ بار کے الیکشن برادری اور سیاسی بنیادوں پر لڑے جاتے ہیں اور ووٹوں کی ضرورت نے تعلیمی اور پروفیشنل سلیکشن کے نظام کو قریباً برباد کر دیا ہے۔

لیکن سب سے بڑا مسئلہ اعلیٰ عدالتوں کی نیم دلانہ پالیسی ہے کیونکہ وہ ایک دہائی سے وکلا گردی کو نہیں رکوا سکے۔ اب لاہور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ وکلا گردی دہشتگردی میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ عالمی قوانین کے تحت اور تمام مذاہب کی تعلیمات کے مطابق مریضوں پر حملہ ناقابلِ قبول تصور کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان میں متعدد دہشتگردی کے واقعات میں بھی آپ کوئی ایسی مثال نہیں دکھائی دے گی جہاں پر ہشپتال کے اندر دہشتگردی کے واقعات پیش آئے ہوں۔ اور جو اکا دکا واقعات پیش بھی آئے تو اس کی دوسری انتہا پسند تنظیموں نے کھل کر مذمت کی۔

آج یہ عالم ہے کہ سینیئر وکلا ہوں یا بار کے عہدیداران ہوں، یا حکومتی حکام ہوں، سبھی اس معاملے کو رفع دفع کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن کوئی انصاف کی بات نہیں کر رہا۔ یہ پاکستانی قوم اور ریاست کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اس طرح کی لاقانونیت معاشروں کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔