'آصف زرداری سندھ میں منی لانڈرنگ، قبضہ مافیا سسٹم کے سربراہ ہیں'

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے بتایا کہ ماڈل ایان علی کو آصف زرداری کا مینجر مشتاق ایئرپورٹ پر چھوڑنے گیا تھا جب 5 لاکھ ڈالر اس سے پکڑے گئے تھے۔ اس کے اکاؤنٹ میں بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹ سے 8 ارب روپے ٹرانسفر کیےگئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کو 1300 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا۔ بعدازاں اس کا کیس بھی بنا اور یہ سب جے آئی ٹی میں لکھا ہے۔

'آصف زرداری سندھ میں منی لانڈرنگ، قبضہ مافیا سسٹم کے سربراہ ہیں'

کراچی میں ہونے والے جرائم کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ہے۔ سندھ میں چلنے والے سسٹم کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں جو کہ پولیس کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید کی سکیورٹی کے لیے جرائم پیشہ لوگوں کو تعینات کیا گیا اور یہ تعیناتیاں سابق صدر آصف زرداری نے خود کروائی تھیں۔ یہ دعویٰ کیا ہے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے۔

سماء نیوز کے پروگروم 'دوٹوک' میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے بتایا کہ کراچی میں ہونے والے جرائم کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ہے۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بد امنی کا براہ راست نہ سہی لیکن سیاسی شخصیات سے تعلق ضرور ہے۔ 2008 سے 2013 تک پھر بھی حالات کچھ بہتر تھے، تب قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔ تب بھی بہت سے معاملات تھے لیکن اتنا کھل کر کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اب تمام کام کھل کر پولیس سے کروائے جاتے ہیں۔ سندھ میں چلنے والے سسٹم کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں۔ کراچی میں سسٹم پولیس کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ لوگوں کی زمینوں پر قبضے کروائے جاتے ہیں۔ آپ جس جگہ چاہیں درخواست دیں، آپ کی درخواست کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس وقت 99 فیصد پولیس کرپٹ ہے۔ گذشتہ 5 سال کے دوران سسٹم نے 700 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ سندھ حکومت کے ذریعے کرپشن کے 700 ارب روپے ملک سے باہر منتقل کیے گئے۔ اس سسٹم کے تمام لوگوں کی کینیڈا، ترکی، دبئی، لندن اور امریکہ میں جائیدادیں ہیں۔ اب چین میں بھی یہ کام شروع کر دیا ہے کیونکہ وہاں زیادہ جانچ پرکھ نہیں ہوتی۔ سعودی عرب میں عمارتیں بنوائیں تاکہ ان کو کرایے پر دے سکیں۔

راؤ انوار نے مزید کہا کہ میں آپ کو منی لانڈرنگ کے حوالے سے سب سے بڑی بات بتاتا ہوں۔ ان کے پاس ایک مشتاق نامی لڑکا تھا جس کا بھائی 18 اکتوبر واقعے میں شہید ہو گیا۔ اس کو انہوں نے نوکری پر رکھا جو ان کے سارے کام کیا کرتا تھا۔ یہ ان کا خاص آدمی تھا اور ہر طرح کا کام مینج کرتا تھا۔ دوائیں اور کھانا تک وہ دیتا تھا۔ بلاول ہاؤس کے کیک کی ادائیگی تک جعلی اکاؤنٹس سے کی گئی۔ میں نے ایک ویڈیو میں بھی اس کی شناخت کی تھی کہ ماڈل ایان علی کو وہی ایئرپورٹ پر چھوڑنے گیا تھا جب 5 لاکھ ڈالر اس سے پکڑے گئے تھے۔ زین ملک نے بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹ سے آصف زرداری کے مینجر مشتاق کے اکاؤنٹ میں 8 ارب روپے ٹرانسفر کیے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کو 1300 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا۔ بعدازاں اس کا کیس بھی بنا اور یہ سب جے آئی ٹی میں لکھا ہے۔ اس کے اکاؤنٹ میں 8 ارب روپے تھے۔ وہ دبئی میں تھا، وہاں سے اسے لندن بھگا دیا گیا۔ اگر وہ صرف مینجر تھا تو اس کے پاس 8 ارب روپے کہاں سے آ گئے اور جب اس کے پاس اتنی رقم ہو تو وہ آپ کی نوکری کیوں کرے گا؟ یہ سب ہوا ہے اور اس کے تمام ثبوت بھی موجود ہیں۔

اینکر نے بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی پر تعینات لوگوں کے حوالے سے سوال کیا تو اس پر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ مجھے بے نظیر بھٹو کی اس وقت کی سکیورٹی پر شکوک و شبہات ہیں کیونکہ میں بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں۔ کراچی میں میری بہت عرصہ تک سروس رہی ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کا کرمنل ریکارڈ ہے جیسے خالد شہنشاہ تھا جس کا گولی مار تھانے میں کرمنل ریکارڈ ہے۔ یہ وہی شخص تھا جو راولپنڈی میں جلسے کے دوران بے نظیر بھٹو کے پیچھے کھڑا تھا۔ بعد میں اس شخص کا قتل ہو گیا۔ اسی طرح بلال شیخ کا بھی کرمنل ریکارڈ تھا۔ 1990 میں میں نارتھ ناظم آباد کے تھانے میں تھا۔ ایک حمیرا انجم نامی لڑکی کو ناظم آباد گورنمنٹ کالج سے باہر نکلتے ہی بلال شیخ نے گولی مار دی تھی۔ بلال شیخ کے خلاف 302 کا کیس بنا۔ اسی طرح ان کے خلاف ڈکیتی اور چوری کے بے تحاشہ کیسز ہیں۔ یہ ان کیسز میں گرفتار بھی ہوئے تھے۔ میں نے خود ان کو ہتھکڑیوں میں دیکھا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ آصف زرداری کی جیل میں رحمان ڈکیت سمیت دیگر جرائم پیشہ لوگوں سے دوستی ہوئی۔ بینظیر کی سکیورٹی آصف زرداری نے تعینات کی تھی۔ انہوں نے خود تمام لوگوں کا انتخاب کیا تھا۔ اویس مظفر ٹپی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بیٹھتا تھا۔ اس کو اختیارات دیے گئے تھے۔ اس کا زمین کے قبضہ مافیا کا گروپ تھا اور وہ یہی کام کرتا تھا۔ لیکن جب اختلافات ہوئے تو اس کو زرداری صاحب نے نکال دیا۔ بلاول ہاؤس کے اطراف کے گھر زبردستی خالی کرائے گئے۔ پولیس کو بھی استعمال کیا گیا۔ ان کے پاس اور بہت سے لوگ ہیں۔ زمینوں کے ریکارڈ کے رجسٹرز پھاڑ دیے گئے۔ دوسرے لوگوں کے کھاتے چڑھائے گئے۔ اگر صرف اسی کی تحقیقات ہو جائیں تو یہاں سے ہی اتنا پیسہ نکلے گا کہ ملک کی معیشت ٹھیک ہو جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں راؤ انوار نے بتایا کہ بے نظیر قتل کیس کی جے آئی ٹی میں مجھے نامزد کیا گیا تھا لیکن میں نے اس پر دستخط نہیں کیے تھے کیونکہ وہ جے آئی ٹی غلط تھی۔ اس میں پرویز مشرف، ڈی آئی جی سعود عزیز، ایس ایس پی خرم شہزاد کا کوئی قصور نہیں تھا۔ کوئی کرمنل ایکٹ نہیں تھا۔ جو اصل لوگ پکڑے گئے تھے وہ تو بعد میں چھوڑ دیے گئے مگر انہوں نے پولیس اہلکاروں کو اس چالان میں نامزد کر دیا۔ میں نے خرم شہزاد سے کہا تھا کہ ہائیکورٹ سے رجوع کریں، میں خود گواہی دوں گا کہ آپ کا کوئی قصور نہیں تھا اور چالان میں زبردستی نام ڈالا گیا۔

راؤ انوار نے الزام عائد کیا کہ جرائم کے خاتمے یا غریبوں کی بھلائی کی طرف ان کی کوئی توجہ نہیں تھی۔ ماضی میں آصف زرداری کے صرف بلاول ہاؤس، آواری ٹاور کے پیچھے والے علاقے میں ان کے والد کا گھر تھا۔ اس کے علاوہ ایک گھر نوابشاہ میں تھا۔ اب دیکھ لیں کتنے گھر بنا لیے ان لوگوں نے۔ لاڑکانہ نوڈیرو میں ذوالفقار بھٹو کا ایک گھر تھا۔ آج وہ گھر اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ وہاں ہیلی کاپٹر لینڈ کرتا ہے۔ اب تو وہاں بہت بڑا جلسہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ تو روز کا اربوں روپے کا کالا دھن بنا رہے تھے۔