ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اغیار کی برائیوں سے تو فوراّ متاثر ہو جاتے ہیں مگر ان کی خوبیوں اور اچھائیوں پر آنکھیں موند لیتے ہیں۔ آزاد ہوئے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ہم نہ تو ایک جامع، حقیقی اور مضبوط جمہوری نظام لا سکے اورںہ ہی ترقی یافتہ ممالک سے سبق حاصل کر سکے۔
حقیقی جمہوریت میں عوام کی حکومت خالصتاً عوام کے ووٹوں سے اور عوام کی خدمت کے لئے بنتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے ریکارڈ اور عوامی فلاح و بہبود کے حامل منشور کے بل بوتے پر عوام سے ووٹ مانگتی ہیں۔ عوام کو بغیر کسی دباؤ کے اپنا حق نمائندگی استعمال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ووٹر بے شک غریب ہو یا امیر الیکشن میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ انتخابی مہم میں شائستگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ غریب امیدوار کے انتخابی اخراجات اس کی پارٹی برداشت کرتی ہے۔ انتخابی اخراجات بھی محدود ہوتے ہیں۔ امیدوار کا ماضی، کردار اور اثاثے عوام کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ ہارنے والی پارٹی کھلے دل سے نتائج تسلیم کرتی ہے۔ حکومت منتخب ہونے کے بعد اپنے منشور کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہے۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کو صحت، تعلیم، پانی، روزگار، سڑکیں اور ديگر بنیادی سہولتیں دینے پر خرچ کیا جاتا ہے نہ کہ حکمرانوں اور اشرافيہ کی عیاشیوں پر۔ حکمرانوں اور عوامی نمائندگان کے پروٹوکول اور اخراجات کم سے کم ہوتے ہیں۔ منتخب نمائندے سے انتخابات کے بعد بھی آسانی سے رابطہ کیا جا سکتا۔ تمام حکومتی امور اور پالیسیاں شفاف ہوتی ہیں اور ہر عمل عوام اور آزاد میڈیا کے سامنے ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کا بھی ایک جامع نظام پایا جاتا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=ofTyc0g-Obc
ایسی یا اس سے ملتی جلتی جمہوریت دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی جمہوریت کا مہذب ممالک کی اور حقیقی جمہوریت سے ذرہ برابر بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے یہاں تو جمہوریت کے معنی اور خدوخال یکسر ہی تبدیل ہو جاتے ہيں۔
وطن عزیز میں سیاسی جماعتیں اپنے ريکارڈ، کارگردگی اور منشور کے بجائے پچھلوں کو کوسنے اور گالم گلوچ کے ساتھ عوام کے پاس جاتی ہیں۔ عوام کو ہر بار جھوٹے اور سہانے سپنوں اور وعدوں سے ورغلایا جاتا ہے۔ بے انتہا انتخابی اخراجات نے عام آدمی کا الیکشن میں حصہ لینا ناممکن بنا دیا ہے۔ پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد بذات خود بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اسی مبہم صورتحال کی وجہ سے کوئی بھی نتائج تسلیم نہيں کرتا۔ اصلی اور حقیقی اثاثے ظاہر نہیں کیے جاتے۔ انتخابات کے بعد جیتنے والے گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور ان سے ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کے بجائے خواص پر خرچ ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کا نظام کلی طور پر رائج نہیں اور اسی وجہ سے سینیٹ وغیرہ کے انتخابات میں بے انتہا پیسہ چلتا ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=_QgdY-SJ5ZI
ایک اور نکتہ جو میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ڈاکٹر کے لئے طب، وکیل کے لئے قانون اور استاد کے لئے متعلقہ شعبے کا سند يافتہ ہونا ضروری ہے مگر محکموں کے سربراہان یعنی وزارا کے لئے ایسی کوئی شرط نہيں۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ایک عالم، ذی شعور اور عقلمند انسان کی رائے کیسے ایک جاہل، کم عقل یا ذہنی پسماندہ شخص کی رائے کے برابر ہو سکتی ہے؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ٹھوس حل نکالنا ضروری ہے۔
بالغ جمہوری ریاستوں میں پارلیمان کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ خالص عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتيں صرف اپنی عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کو دیکھيں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی ترقی اور خوشحالی کا راز اس کی جمہوریت اور مضبوط پارلیمان میں پوشیدہ ہے۔ شفاف و غیر جانبدارانہ نظام اور صرف عوام کے ووٹ سے بننے والی پارلیمان ديگر تمام اداروں سے بالاتر اور سپریم ہوتی ہے۔ ہر ادارہ پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ پارلیمان کسی بھی ادارے کے سربراہ کو طلب بھی کر سکتی ہے اور بازپرس بھی کر سکتی ہے۔ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرتے ہیں اور کوئی بھی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ وہاں پارلیمان آزادانہ طریقے سے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرتی ہيں۔
https://www.youtube.com/watch?v=Qyh6wa4A_pY
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پارلیمان دنوں، مہینوں یا سالوں میں اس مقام پر نہیں پہنچيں بلکہ اس ميں کئی عشرے لگے ہيں اور ان کی پارلیمان کی مضبوطی میں سب سے اہم کردار جمہوری نظام کے تسلسل کا ہے۔ پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ لولی لنگڑی ہی سہی مگر وہاں ہر جمہوری حکومت کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا گیا اور وہاں پارلیمان کو ہی تمام اداروں پر برتری حاصل ہے۔
ہماری ستم ظریفی ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کو تسلسل کے ساتھ پنپنے نہیں دیا گیا۔ ہمارے یہاں حقیقی معنوں میں پارلیمان کبھی بھی بالا دست نہیں رہی اور جس کا جب جی چاہا اس کی دیواروں میں نقب لگاتا رہا۔ میں اور میرے کروڑوں ہم وطن یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے ووٹ میں اتنی طاقت بلکہ سچ کہیے تو ہمارے ووٹ کی اتنی اوقات ہی نہيں کہ وہ ایک مضبوط پارلیمان کی تشکیل کر سکے۔ ایک ایسی پارلیمان جو صرف عوام کے ووٹ سے منتخب ہو اور صرف عوام کو ہی جوابدہ ہو۔
ملکی ترقی اور خوشحالی کے اہداف حاصل کرنے کے لئے حقیقی جمہوری نظام اور مضبوط پارلیمان کا ہونا اشد ضروری ہے جو صرف اور صرف شفاف جمہوری نظام کے تسلسل اور انقلابی اصلاحات سے ہی ممکن ہے۔
ٹیگز: پاکستان میں جمہوریت
مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں