1990 کی دہائی کے اوائل تک لذیذ پھلوں اور سبزیوں کے لیے مشہور بلوچستان میں اب وقفے وقفے سے خشک سالی کی لہریں آ رہی ہیں جن کی وجہ سے زرعی پیداوارکے لئے پانی کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ صوبے کا بیش تر حصہ اب پانی کی کمی کے مسائل سے دوچار ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے متوقع اثرات جن میں صحرا، بے وقت کی بارشیں، طویل خشک سالی اور گرمی میں پانی کے حصول میں مزید دباﺅ بڑھ جانے کا خدشہ ہوتا ہے جس سے مقامی آبادی کا ذریعہ معاش زراعت بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ 2007، 2010، 2011 اور حالیہ 2022 کی سیلابی صورت حال میں جانی ومالی نقصانات کے ساتھ بڑے پیمانے پر کھڑی فصلوں، باغات اور مال مویشی تباہ ہو گئے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بلوچستان سے ملنے والی دستاویزات کے مطابق حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی صورت حال کے دوران بلوچستان میں بارشوں سے 2 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی۔
بیش تر اضلاع میں اب بھی جنریٹر چلا کر کھیتوں میں کام کیا جاتا ہے:
گزشتہ دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں سے بلوچستان کا ضلع چاغی بھی شدید متاثر ہوا۔ چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین کے زمیندار حاجی یار محمد ریکی بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ پچھلے سالوں کی طرح اس مرتبہ انہیں پھر خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے زرعی پیداوار نصف سے بھی کم ہو کر رہ گئی ہے۔
حاجی یار محمد ریکی کے مطابق چاغی میں زراعت بجلی پر منتقل نہیں ہو سکی بلکہ اب بھی وہ ڈیزل سے چلنے والے جنریٹرز چلا کر اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہیں جس سے ان کے لیے کاشت کاری زیادہ مہنگی ہو گئی ہے اور انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب ضلع چاغی میں عرصہ دراز سے بارشیں نہ ہونے کے باعث فصلوں کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
حاجی یار محمد ریکی کا کہنا ہے کہ زمیندار پورا سال سیزن کا انتظار کرتے ہیں اور ادھار لے کر بیج اگانے سمیت کھاد اور دیگر مصنوعات خرید کر زمین کو زرخیز بناتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں مگر اب طویل خشک سالی کی وجہ سے حالات انتہائی خراب ہیں۔ ہمارے پاس زمینداری کے علاوہ دوسرا کوئی ذریعہ معاش نہیں اور یہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں اور خشک سالی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہی نہیں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ڈیزل اور زرعی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوا ہے جس سے زمیندار طبقے کی قوت خرید جواب دے گئی ہے اور انہیں شدید مالی مشکلات درپیش ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ زرعی پیداوار میں کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی زمیندار کو گزشتہ سال کی فصل سے 100 بوری گندم ملی تو اس سال اسی زمین سے 40 بوری گندم کی پیداوار ملی ہے اور اگر کسی زمیندار نے پیاز اگایا ہو اور اس کی ایک بوری 2000 روپے سے زیادہ میں فروخت ہو تو زمیندار کو کچھ فائدہ مل سکتا ہے۔ لیکن اگر قیمتیں کم ہو جائیں تو ہم اپنے اخراجات پورے نہیں کر سکیں گے۔ ایسی صورت حال میں ہم کہاں جائیں، یہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ زمینداروں کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے ہماری مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔
زراعت کو فروغ دینے کے لئے محکمہ زراعت کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں:
محکمہ زراعت بلوچستان کے ڈائریکٹر پلانٹ پروٹیکشن ایگریکلچر ڈاکٹر عارف شاہ بتاتے ہیں کہ 'قدرتی آفات سے بروقت نمٹنے کے لئے لائحہ عمل طے کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ محکمہ زراعت بلوچستان کے پاس ایسا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے کہ ہم بہتراقدامات اٹھائیں۔'
ڈاکٹرعارف شاہ کے مطابق 'قدرتی آفت اور موسم کی صورت حال کی معلومات کے لئے دنیا بھر میں منظم نظام رائج ہے جو زمینداروں اور کاشت کاروں کو ممکنہ خطرات بشمول طوفانی بارشوں، ژالہ باری اور دیگر ممکنہ حالات کے بارے میں بروقت اطلاع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ہوشیاررہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ابھی تک یہ دستیاب نہیں ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی سطح پر کئی محکمے موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہے ہیں لیکن ان کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ 'بلوچستان میں محکمہ زراعت، ماحولیاتی تحفظ اتھارٹی اور دیگر محکموں کے درمیان کوئی مثالی رابطہ نہیں ہے۔' رابطوں کا فقدان اور منظم حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جو باعث تشویش ہے۔
ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق حکومت بلوچستان موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ 'تاہم محکمے کے پاس وسائل انتہائی محدود ہیں جس کی وجہ سے ہمیں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے پاس وہ علم اور مہارت نہیں ہے جس کی ہمیں موسمیاتی لحاظ سے سمارٹ ایگریکلچر کے لیے ضرورت ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان میں زراعت کا شعبہ خطرات سے دوچارہے۔' وہ بتاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں بلوچستان میں زراعت کو فروغ دینے کے لیے طویل المدتی تحقیق اور نئے تجربات کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبہ جیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر دین محمد کاکڑ کے مطابق 'کسی زمانے میں کوئٹہ میں 350 کاریز موجود تھے لیکن آبادی میں اضافے کے ساتھ یہ ختم ہونا شروع ہوگئے اور آج ہمیں ان کے آثار نہیں مل رہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہریں پہاڑوں کے دامن سے پانی کو شہری آبادی کی طرف موڑ دیتی تھیں اور اس پانی کے استعمال سے نہ صرف زرعی اراضی سیراب ہوتی تھی بلکہ لوگ پینے کے لیے بھی یہاں سے پانی لے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'اگر حالیہ دنوں میں پانی کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو بلوچستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی اور اس سے صوبے کی زراعت تقریباً ختم کر رہ جائے گی۔'
ورلڈ بینک کی 2021 میں شائع ہونے والی رپورٹ (Country Profile Risk Pakistan) کے مطابق 1999 سے 2002 تک طویل خشک سالی کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ زیادہ متاثر ہوئے جس سے دو ملین مال مویشی بھوک کی وجہ سے مر گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران 2.4 ملین ایکڑ پر مشتمل فصلیں تباہ ہو گئیں جس سے 5.1 ملین کے لگ بھگ کا مالی نقصان ہوا۔
زراعت کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ 38.57 فیصد لوگوں کا روزگار براہ راست اس شعبے سے وابستہ ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر زراعت کے شعبے پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق کسان اپنی زمینوں پر مختلف سیزن میں ملک کی پانچ اہم ترین فصلیں؛ گندم، چاول، کپاس، گنا اور مکئی اگاتے ہیں مگر اس کے باوجود اس پر خاص توجہ نہیں دی گئی اور کپاس کے فصل کی پیداوار میں کمی تشویش ناک ہے۔ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس صنعت کا ملک کے مجموعی جی ڈی پی میں 10 فیصد حصہ ہے۔ 30 فیصد کے لگ بھگ لوگوں کا روزگار کپاس کی پیداوار کے ساتھ منسلک ہے جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔
خشک سالی کا الرٹ جاری ہونے کے باوجود حکومت نے اقدامات نہیں اٹھائے:
بلوچستان زمیندار ایکشن کمیٹی کے سیکرٹری جنرل حاجی عبدالرحمن بازئی سمجھتے ہیں کہ وفاق و صوبائی حکمرانوں کی جانب سے بلوچستان کے عوام کو نظرانداز کرنا اور انہیں اہمیت نہ دینا بھی مسائل میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1997 میں بلوچستان میں خشک سالی کی ایک طویل لہر آئی جو 2008 تک جاری رہی۔ اس دوران زمینداروں کے 43 لاکھ ثمردار درخت، 5 ہزار 145 ٹیوب ویل، 3125 چشمہ جات و کاریزات اور ایک کروڑ 25 لاکھ بھیڑ بکریوں میں سے 75 لاکھ مال مویشی مر گئے۔ مجموعی طور پر خشک سالی کے دوران صوبے کو 600 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
عبدالرحمٰن بازئی کے مطابق اس وقت بلوچستان کے 28 اضلاع تھے جن میں سے 25 اضلاع مکمل طور پر موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ قرار دیے گئے تھے۔ یہ اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ پہلے سے خشک سالی کا الرٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کوئی بھی صوبائی یا وفاقی حکمران نہیں گزرا جس کو ہم نے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے طریقہ کار یا اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش نہ کیا ہو۔ 'مگر بدقسمتی سے ہمارے صوبے بلوچستان کو کوئی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ کسی کو یہاں کے لوگوں کی مشکلات کا ادراک ہے۔'
حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے زمینداروں کو 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ سیب، انارکے باغات، پیاز و دیگر تیار فصلیں بھی سیلابی پانی کی نذر ہو گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ زراعت زمینداروں میں مفت بیج تقسیم کر رہا ہے جو خوش آئند اقدام ہے۔ ہم ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ زمینداروں کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لئے دیگر محکمے بھی آگے آ کر اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے بتایا کہ خشک سالی کے دوران 600 ارب، سیلاب کے دوران 300 ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔ مجموعی طورپر 900 ارب روپے کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے فوری طور پر 300 ارب روپے جاری کیے جائیں تاکہ ابتدائی مرحلے میں زمینداروں کی بحالی کے لئے اقدامات کا آغاز کیا جا سکے۔
یحییٰ ریکی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے اور وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں۔ یحییٰ ریکی نوجوانوں اور خواتین کے مسائل، تعلیم وصحت، بیروزگاری، ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ودیگر موضوعات پر اردو اور انگلش میں کالم اور فیچر لکھتے ہیں۔