ریحانہ تسلیم (شناخت خفیہ رکھنے کے لئے فرضی نام استعمال کیا گیا ہے) کراچی کی رہائشی ہیں۔ شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انٹرویو دیتے ہوئے ریحانہ نے بتایا کہ 8 سال قبل جب میری عمر 12 سال تھی تو ہم اندرون سندھ کے ایک گاؤں میں رہتے تھے جہاں ہمارے خاندان کے تمام افراد دہائیوں سے آباد تھے۔ ایک دن میرے والد کو ایک شخص نے کہا کہ اسے کچھ بچیوں کی ضرورت ہے جو گھر میں کام کاج کر سکتی ہوں جبکہ اس کے عوض ان کے گھر والوں کو اچھا معاوضہ بھی ملے گا اور ساتھ ہی ان بچیوں کا تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہے گا۔
میرے والد نہیں مانے مگر وہ شخص روز آنے لگا اور پھر ایک دن وہ میرے والد کو اس جگہ لے گیا جہاں مجھے کام پر رکھنا تھا۔ میرے والد نے تسلی کے بعد رضامندی ظاہر کر دی اور مجھے اس گھر میں بھیج دیا۔ جب میں وہاں پہنچی تو کچھ دن تک معمول کے مطابق میں گھر کے کام کاج کرتی رہی مگر پھر ایک روز کچھ لوگ اس گھر میں آئے اور مجھے اس گھر کی مالکن نے کہا کہ یہ ان کے بھائی ہیں اور کہیں اور رہتے ہیں۔ تم کچھ دنوں کے لیے ان کے ساتھ چلی جاؤ اور ان کے گھر کے کام کرنے ہوں گے۔ کچھ دن بعد میں تمہیں واپس لے آؤں گی۔
ریحانہ نے بتایا کہ مجھے اتنی سمجھ بوجھ تھی نہیں تو میں نے رضامندی ظاہر کر دی اور اگلے روز میں ان کے ساتھ روانہ ہو گئی۔ جب میں وہاں پہنچی تو رات کو انہوں نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی اور یہ میرے ساتھ کئی سال تک ہوتا رہا۔ میں بہت بیمار رہنے لگی۔ ان لوگوں کو کئی واسطے دیے کہ مجھے میرے گھر جانے دیا جائے مگر وہ انسان تو کیا، حیوانوں سے بھی برے لوگ تھے۔ پھر ایک دن میں نے وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ مجھے میرے گاؤں کا نام یاد تھا تو میں نے لوگوں سے پوچھا اور یوں میں کسی نہ کسی طرح گھر پہنچ گئی۔
ایک سوال کے جواب میں ریحانہ نے بتایا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی تاہم میں نے اور میرے گھر والوں نے قانونی طور پر کچھ نہیں کیا کیونکہ ایک تو ہم مالی طور پر یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ میں اپنے گاؤں کی کوئی پہلی لڑکی نہیں تھی جو اس طرح کے ظلم کا شکار ہوئی تھی۔ اب میں آزاد ہوں مگر اکثر رات کو مجھے نیند نہیں آتی کیونکہ وہ 8 سال جس طرح میرے گزرے، انہوں نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا مگر میں اب جہاں ہوں خوش ہوں اور ان گزرے دنوں کو نہیں یاد کرنا چاہتی۔
انسانی سمگلنگ ایک منظم کاروبار بن چکا ہے
غربت و افلاس، وسائل کی کمی اور حکومت کی جانب سے مؤثر کارروائی کرنے میں ناکامی ایسی چند وجوہات ہیں جن کے باعث پاکستان میں انسانی تجارت کا کاروبار عروج پر ہے۔ کم سن لڑکیوں اور خواتین کے انسانی سمگلنگ کے شکار ہونے کی شرح میں ہر سال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اغوا کار گروہوں کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں بسنے والے غریب اور پسماندہ طبقات بن رہے ہیں۔ یہ منظم گروہوں کی شکل میں کام کرتے ہیں جو بچیوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور جسم فروشی جیسے گھناؤنے کاموں کے لیے انہیں آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ جبری شادیوں، جنسی زیادتی اور جسمانی تشدد کے ذریعے خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے۔
غربت کے باعث بہت ساری خواتین کو ان کی رضامندی کے بغیر اپنے غریب گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے جبری شادیوں پر مجبور کر دیا جاتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں قرضوں کی ادائیگی کے لیے خاندان کی جانب سے اپنی بیٹیوں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔
گلوبل انویسٹی گیٹو جرنلزم نیٹ ورک کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بچوں اور عورتوں کی سمگلنگ سے متعلق مقدمات کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد لڑکیاں اور خواتین انسانی سمگلنگ کا شکار ہوتی ہیں۔
پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق سب سے زیادہ سمگلر صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں سرگرم ہیں۔ 2012 میں ایف آئی اے نے اپنے 40 ایسے عہدیداروں کو تفتیش میں شامل کیا تھا جن کے انسانی سمگلروں کے ساتھ روابط تھے۔ ان میں سے ایک اہلکار کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا جبکہ دیگر 33 افراد کو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہونے پر سزا دی گئی تھی۔
پاکستان میں ہر گزرتے سال کے ساتھ انسانی سمگلنگ کے کیسز کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔ سندھ کے غریب علاقوں سے تعلق رکھنے والی کم سن لڑکیوں اور خواتین کو افغانستان کے مختلف بازاروں سے لے کر چین میں جا کر ناجائز مقاصد کے لیے فروخت کیا جاتا ہے۔ صوبہ سندھ کی پولیس نے 2017 کے بعد سے اب تک انسانی سمگلنگ کے 303 نئے کیسز کی نشاندہی کی ہے۔ کراچی میں ابھی تک سمگلنگ سے متاثرین کی 2697 رپورٹس درج ہی نہیں ہوئیں۔
اس ضمن میں سندھ پولیس کے شعبہ سپیشلائزڈ انویسٹی گیشن یونٹ سے متعدد مرتبہ مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
انسانی سمگلنگ پاکستان کا بڑا مسئلہ
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے حوالے سے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی گذشتہ برس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں انسانی سمگلنگ کا سب سے بڑا مسئلہ جبری مزدوری ہے جس میں سمگلر ملازمت کی سخت شرائط طے کرتے ہیں اور ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر پورے پورے خاندانوں کو اور بعض اوقات ان کی کئی نسلوں کو جبری مشقت میں پھنسا کے رکھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 'سمگلنگ کے اس چکر میں مقامی بااثر لوگ مردوں، عورتوں اور بچوں کو زراعت، اینٹوں کے بھٹوں، ماہی گیری، کان کنی اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بھی قرضوں کی ادائیگی کے عوض جبری طور پر کام کرواتے ہیں۔'
امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 2020 کے دوران پاکستان بھر میں پولیس نے سمگلنگ کے 32,022 متاثرین کی شناخت کی ہے جو 2019 میں 19,954 متاثرین کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ ان متاثرین میں 15,255 خواتین، 9,581 مرد، 6,937 بچے اور 249 ٹرانس جینڈر افراد شامل تھے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی رپورٹ؛ 'جدید غلامی'
کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان (ایچ آر سی پی) نے یکم مارچ 2022 کو ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پاکستان انسانی سمگلنگ کے لیے ایک ذریعے، ہموار راستے اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کی 'جدید غلامی؛ پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کی سمگلنگ' کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی سمگلنگ کے حوالے سے ملک میں قابل اعتماد اعداد و شمار کی کمی ہے لہٰذا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کس پیمانے پر انسانی سمگلنگ کی جا رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ اسے خاص طور پر اندرون ملک سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے حوالے سے فکرمندی ہے جن کا دائرہ جنسی سمگلنگ، بچوں کی جبری مشقت، جبری مزدوری، جبری بھیک اور جبری شادی کے معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ رپورٹ کہتی ہے کہ معاشی طور پر کمزور خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مرکز کراچی میں بھی گزشتہ پانچ سالوں کے دوران انسانی سمگلنگ کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خواتین کی سمگلنگ روکنا کیوں مشکل ہے؟
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے میڈیا میں بہت کم رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انسداد سمگلنگ کے موجودہ قانون پر عمل درآمد بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سمگلنگ کی مختلف جہتوں کے بارے میں آگاہی کا فقدان اور متعلقہ فریقین جیسے کہ ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے درمیان عدم ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ ایسی وجوہات ہیں جن کے باعث اس جرم کو روکنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
صحافی منیزے جہانگیر نے اس حوالے سے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا؛ 'اس معاملے پر رپورٹنگ بہت مشکل ہے۔ اس میں مافیا بھی ملوث ہوتے ہیں۔ لوگ بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہیں ڈر لگتا ہے کہ پولیس کیس بن جائے گا۔'
منیزے بتاتی ہیں کہ وہ خود ایسی خواتین سے مل چکی ہیں جو انسانی سمگلروں کے جھانسے میں آ کر جنسی استحصال کا نشانہ بنیں اور بھاگ کر نکلنے میں کامیاب ہوئیں جبکہ ایسے گھرانوں نے کوئی قانونی راستہ اختیار نہیں کیا کیونکہ ایسے گھرانے بہت ڈرتے ہیں۔ خاندان اور معاشرے میں بدنامی کے ڈر نے ان کی ہمت توڑ دی ہوتی ہے۔'
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے صوبائی اور وفاقی اہلکاروں پر مشتمل یونٹ یعنی سپیشل ٹاسک فورس قائم ہے۔ اگرچہ اس یونٹ کا اپنا ایک بجٹ مختص ہے لیکن اس کی استعداد اور اس کی تربیت کا معیار غیر واضح ہے۔ اس کا قیام بھی اس لیے عمل میں آیا ہے کہ ایف آئی اے بنیادی طور پر بین الاقوامی سمگلنگ کے حوالے سے فکرمند ہے اور اس کی توجہ پاکستانی عوام کی اندرون ملک غلامی پر مرکوز نہیں ہے۔ پاکستان میں جدید غلامی کے جرم کو مربوط فریم ورک اور قانونی اور باقاعدہ نظام کے ذریعے سے روکا جا سکتا ہے۔
منیزے کے مطابق پاکستانی آئین کے مطابق کسی کو غلامی میں رکھنا ممنوع ہے۔ جدید غلامی کی کچھ اقسام پاکستان پینل کوڈ میں جرم قرار دی گئی ہیں لیکن ان کے درمیان سنگین حد تک خلا موجود ہے۔ مثلاً بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی انسانی سمگلنگ 2002 کے انسانی سمگلنگ کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے آرڈی ننس کے تحت ایک جرم ہے لیکن ملک کے اندر انسانی سمگلنگ جرم نہیں ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت قانونی کارروائی اور سزا حکومت کی طرف سے دی جائے گی لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ سزا بے ضابطہ نقل مکانی پر دی جائے گی یا پھر جدید غلامی کی صورت میں۔
انسانی سمگلنگ روکنے کے لئے حکومت کیا کرے؟
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لئے حکومت کو چند تجاویز بھی دی گئی ہیں؛
انسانی سمگلنگ کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کوائف اکٹھے کرنے، انہیں مرتب کرنے اور رپورٹ کرنے کا ایک مؤثر نظام ترجیحی بنیادوں پر وضع کیا جانا چاہئیے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سمگلنگ کی نشاندہی کرنے اور اطلاع دینے کی صلاحیت کو بھی مضبوط بنایا جانا چاہئیے۔
انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ حکومت انسداد سمگلنگ کے قوانین کو لاگو کرنے کے لیے مناسب وسائل مختص کرے۔
حکومت متعلقہ فریقین کے مابین بہتر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن خرم علی کہتے ہیں؛ 'پاکستان میں جبری مزدوری عام ہے۔ ایک غریب خاندان اگر قرضہ لے کر ادا نہ کر سکے تو پھر ان سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔ بعض اوقات انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں بھی بھیج دیا جاتا ہے۔'
زیادہ تر واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ سب سے بڑا محرک غربت ہے لیکن انسانی سمگلنگ روکنے کے قوانین پر بھی مناسب انداز میں عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ خرم علی بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں کم و بیش ایک ہزار تک ملزمان کو انسانی سمگلنگ کے جرم میں قانونی دائرے میں لایا گیا ہے لیکن ان میں سے سزا محض 161 ہی افراد کو دی گئی ہے جبکہ باقی ملزمان رہا کر دیے گئے ہیں۔
فیصل رحمان کراچی میں مقیم ہیں اور فری لانس جرنلسٹ ہیں۔ انہوں نے فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ابلاغیات عامہ کی تعلیم حاصل کی ہے اور 2013 سے شہری حقوق، انسانی حقوق اور کلائمیٹ چینج سے متعلق مختلف موضوعات پر قلم کشائی کر رہے ہیں۔