جبری جسم فروشی کرانے والے عالمی سطح پر 100 ارب ڈالر کماتے ہیں: رپورٹ

جبری جسم فروشی کرانے والے عالمی سطح پر 100 ارب ڈالر کماتے ہیں: رپورٹ
دنیا بھر میں جنسی استحصال اور جبری جسم فروشی کے لیے انسانوں کی اسمگلنگ سے جرائم پیشہ گروہوں کو سالانہ تقریباﹰ سو ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ بات اس موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر  بتائی گئی۔
دنیا کے مختلف ممالک میں جنسی استحصال کے لیے انسانوں، خاص کر عورتوں اور لڑکیوں کی اسمگلنگ ایک ایسا عالمگیر مسئلہ ہے کہ اس کے تدارک کے لیے بین الاقوامی برادری عرصے سے کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں اور غریب اور پسماندہ ممالک سے مقابلتاﹰ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی ایسی اسمگلنگ کو آج تک ختم نہیں کیا جا سکا۔
اس بارے میں 'انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف اتحاد‘ نامی بین الاقوامی پلیٹ فارم کی 21 ویں کانفرنس آسٹریا میں پیر چودہ جون کو شروع ہوئی تھی، جو تین روز تک جاری رہنے کے بعد آج بدھ سولہ جون کو ختم ہو رہی ہے۔ اس کانفرنس میں یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کی طرف سے اس کے خصوصی مندوب اور ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے رابطہ کار ویلیئنٹ رِچی نے حصہ لیا۔
ویلیئنٹ رِچی نے انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے اور اس بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے آج بدھ کے روز ڈی ڈبلیو ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ہیومن ٹریفکنگ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی وجہ سے ایک پوری 'سیاہ معیشت‘ جنم لے چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو ایسی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے زیادہ بھرپور اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے اس خصوصی مندوب نے ڈوئچے ویلے ٹیلی وژن کو بتایا کہ مختلف براعظموں میں جرائم پیشہ گروہ ہر سال جن بے شمار عورتوں اور بچوں کو جبری جسم فروشی کے لیے دوسرے شہروں یا ممالک میں اسمگل کر دیتے ہیں، ان سے انہیں تقریباﹰ 100 ارب ڈالر کے برابر آمدنی ہوتی ہے۔انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے لیے یہ اس لیے بہت پرکشش کاروبار ہوتا ہے کہ انہیں اسمگل شدہ افراد کو جنسی غلاموں کے طور پر بیچنے کے عوض بہت بڑی بڑی رقوم ملتی ہیں۔
جسم فروشی اب صرف کسی بھی ملک یا شہر میں مخصوص جگہوں پر ہی نہیں ہوتی بلکہ جنسی خدمات کی یہ ناجائز خرید و فروخت زیادہ سے زیادہ آن لائن بھی ہونے لگی ہے۔

''ایسی ہزاروں ویب سائٹس ہیں، جن کے ذریعے مجرمانہ کاروبار کے طور پر درپردہ لیکن ویسع پیمانے پر انسانوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے صرف انسانی معاشروں میں ہی نہیں بلکہ سائبر ورلڈ میں بھی سخت، مربوط اور نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں سامنے آنے والا برائڈ سمگلنگ ٹو چائنہ سکینڈل
پاکستان میں سی پیک کی آمد کے بعد چین کوئی انجانی چیز نہیں رہ گئی۔ ایک عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ اب پاکستان میں چین سے معاشرتی تعلقات بھی قائم کرنے کا رواج عوامی سطح پر نظر آئے گا۔ تاہم انہی معاشرتی تعلقات میں پنہاں ہیں جرائم بھی۔ اور پاکستان میں منظم طور پر جسم فروشی کا دھندا کرنے والے گروہ کا انکشاف گزشتہ سال ہوا جس نے رواں سال کے ابتدائی مہینوں میں طول پکڑا۔ اس معاملے میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ بظاہر چینی مردوں سے پاکستانی لڑکیوں کی شادی کروا کر انہیں جسم فروشی کے دھندے کے لیے چین منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسکی مزید تفصیل بی بی سی نے کچھ یوں درج کی ہے۔ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل احمد میؤ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا تھا تاہم متاثرہ خواتین میں مسلمان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔

'اگر لڑکی مسیحی ہوتی تھی تو یہ (گروہ) چینی لڑکے کو مسیحی اور اگر مسلمان ہوتی تھی تو اسے مسلمان ظاہر کرتے تھے۔' ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان 'زیادہ تر اس حوالے سے تصدیق نہیں کرتے تھے۔'

ایف آئی اے کے افسر کے مطابق یہ گروہ باضابطہ طور پر لڑکیوں کی سمگلنگ کا کام کرتا تھا اور چینی باشندوں کے ساتھ ان کے پاکستانی سہولت کاروں میں ایک وکیل کے علاوہ ایک پادری، ایک مترجم بھی شامل تھا۔

اس گروہ کے افراد نے ڈیوائن گارڈن لاہور کے علاقہ میں تین گھر کرائے پر لے رکھے تھے۔ شادی سے قبل ان کا وکیل سہولت کار انڈیپینڈنٹ کنسِنٹ سرٹیفیکیٹ یعنی آزادانہ اور اپنی مرضی سے شادی کرنے کا سرٹیفیکیٹ تیار کر کے لڑکیوں سے اس پر دستخط کرواتا تھا۔

گروہ میں شامل لاہور سے گرفتار ہونے والی چینی خاتون کینڈس سنہ 2017 سے پاکستان میں مقیم تھی۔ وہ لڑکیوں کی نشاندہی وغیرہ میں بھی شامل تھی۔

سرٹیفیکیٹ پر دستخط کروانے کے بعد پادری کی مدد سے لڑکی کی چینی لڑکے سے شادی کروائی جاتی تھی جس کے حوالے سے تقریب بھی منعقد کی جاتی تھی۔ اس کے بعد ایک ماہ کے لیے لڑکی کو ڈیوائن گارڈن کے علاقے میں واقع گھر میں رکھا جاتا تھا۔ اس دوران اس کے شناختی کارڈ پر نام کی تبدیلی اور سفری دستاویز کی تیاری کی جاتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ لڑکی کو چینی زبان بولنا سکھایا جاتا تھا۔ ایک ماہ بعد لڑکی کو لڑکے کے ساتھ چین بھیج دیا جاتا تھا۔

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے مطابق چین میں ان لڑکیوں کو جبری جسم فروشی کے کاروبار میں ڈال دیا جاتا تھا۔ چین میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ جو خواتین جسم فروشی کے لیے موزوں نہیں رہتی تھیں انھیں اعضا کی تجارت میں استعمال کیا جاتا تھا۔

تاہم پاکستان میں چین کے سفارتخانے نے رواں برس ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے 'اعضا کی تجارت کا کاروبار' چین میں ہونے کی سختی سے تردید کی تھی۔ تاہم انھوں نے لڑکیوں کو شادی کر کے چین سمگل کرنے والے گروہوں کے متحرک ہونے کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔

فیصل آباد اور لاہور سے گرفتار ہونے والے چینی باشندوں کو ابتدائی تفتیش کے بعد جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر کے مطابق چینی باشندوں نے دورانِ تفتیش جرم قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔